اشکوں
کے چراغ ایڈیشن سوم صفحہ614
420۔ وہ
میری ماں ہے اسے اس یقیں سے ملتا ہوں
وہ
میری ماں ہے اسے اس یقیں سے ملتا ہوں
میں
جب بھی ملتا ہوں جھک کر زمیں سے ملتا ہوں
بلندیوں
کا ثناخواں ہوں پستیوں کا امیں
میں
آسماں سے اتر کر زمیں سے ملتا ہوں
وہ
دیکھ لیتا ہے تصویر میرے اندر کی
میں
آئینے سے نہیں ہم نشیں سے ملتا ہوں
وہ
حرف و صوت کا قاتِل پکار کر بولا
میں
ایک سانپ ہوں اور آستیں سے ملتا ہوں
اسی
کا بھیجا ہوا ہوں اسی کے کہنے پر
جہاں
پہ اترا ہوں مضطرؔ وہیں سے ملتا ہوں
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں