صفحات

پیر، 2 جنوری، 2017

6۔ نذر۔ کیوں پریشان پئے حجت وبرہاں ہوں میں

کلامِ مختار ؔ

نذر۔ کیوں پریشان پئے حجت وبرہاں ہوں میں


ذیل کے اشعار حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری جو سیدنا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے قدیمی رفیق اور جماعت کے اہل علم حضرات میں ایک خاص مقام رکھنے والے بزرگ ہیں، ان کی لاہور میں لکھی ہوئی ایک طویل نظم کا حصہ ہیں۔حضرت حافظ صاحب آج کل علیل ہیں اس لئے ان کے سینکڑوں اشعار پنسل سے لکھے ہوئے مسودہ سے جو دراصل کئی جگہوں سے پڑھا بھی نہیں جاتا ۔اُن کی اجازت سے یہ اشعار حاصل کئے گئے ہیں اور اس اعتراف میں ہمیں قطعًا کوئی تامل نہیں کہ اِن کا انتخاب حضرت حافظ صاحب کی مرضی کے مطابق ہواا ورنہ ہی ترتیب۔تاہم اسے ہی غنیمت اور تبرک سمجھ کر حضرت حافظ صاحب کا منظوم کلام ہدیۂ  قارئین ہے۔احباب سے درخواست ہے کہ وہ حضرت حافظ صاحب کی صحت کاملہ و عاجلہ کے لئے دعا کرتے رہیں تا وہ شمعیں جنہوں نے براہ راست اپنی زندگیوں میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اکتسابِ نور کیا ہے ،اُن کی ضیا باریوں سے ہم زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوتے رہیں۔ادارہ

کیوں پریشان پئے حجت وبرہاں ہوں میں
فرصتم باد کہ مستِ مئے عرفاں ہوں میں

ہمہ تن آرزو ؤحسرت وارماں ہوں میں
خوشتر آں روز کہ خاکِ در ِ جاناں ہوں میں

یہ تو کس منہ سے کہوں تابع فرماں ہوں میں
ہاں یہ عرض ہے کہ لذت کش احساں ہوں میں

جلوۂ حسن سے معمور ہے کاشانۂ دل
یعنی اس طرز سے بھی حافظِ قرآں ہوں میں

قمر اس روئے ضیا بار کا ثانی ۔توبہ
شمس کہتا ہے چراغِ تہِ داما ں ہوں میں

حق پسندوں سےیہ کہتا ہے نظارہ ان کا
اس زمانے کے لئے آیۂ  رحما ں ہوں میں

لاجواب ان کا ہر انداز عجب حیرت ہے
کس کا مداح نہ ہوں کس کا ثناخوا ں ہوں میں

میں کہاں اور مقامِ درِ دلدار کہاں
رخصت اے ضبط کے جی کھول کے رقصاں ہوں میں

لے گئی کس قدر اونچا مجھے قسمت میری
واہ رے میں کہ فدائے شہِ عرفا ں ہوں میں

مجھ سے ناچیز پہ ایسی نگہ روح نواز
اتنے الطاف وعنایات کہ نازاں ہوں میں

سامنے ہے وہ رتن باغ کامنظر اب تک
روح بشاش ہے ۔دل شاد ہے خندا ں ہوں میں

وہ دمِ پرسشِ احباب یہ کہنا میرا
کچھ تعجب نہ کریں آپ جو گریا ں ہوں میں

یہ وہ حالت ہے جو ہوتی ہے خوشی سے پیدا
اس خوشی کامتمنی بدل وجا ں ہوں میں

سن کے الفاظِ نوازش نکل آئے ہیں یہ اشک
اُن کودیکھا جو گل افشاں گہرِ افشا ں ہوں میں

امتحاں گاہِ وفا میں جبل استقلال ہیں اہل
ورنہ اک ذرۂ خاک درِ جانا ں ہوں میں

قصۂ آدم وشیطاں نے دیا ہے یہ سبق
کس سے وابستہ رہوں کس سے گریزا ں ہوں میں

اُن کی نظروں سے گرے کوئی مگر میں نادم
ناقضِ عہدِ وفاکوئی ہو لرزا ں ہوں میں

رنگِ نیرنگئ آفاق عیاذًا باللہ
کبھی ششدر کبھی خنداں کبھی گریا ں ہوں میں

اے تری شان یہ نخوت یہ رعونت یہ غرور
پرِپروانہ کہے شمعِ شبستا ں ہوں میں

ایک نکلے گا جماعت سے تو آئیں گے ہزار
یہ یقینی ہے اگر صاحبِ ایما ں ہوں میں

کچھ سروکار نہیں چون وچراسے مختاؔر
شکر صد شکر کہ ہم مشرب مستا ں ہوں میں

نوٹ : حضرت حافظ صاحب کی یہ نظم ماہنامہ خالد ربوہ ماہ ستمبر۔اکتوبر1957ء ایڈیٹر صاحب کے نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی۔

(حیات حضرت مختار صفحہ 279-280)

حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں