اشکوں
کے چراغ ایڈیشن سوم صفحہ610
416۔ محروم
ہو نہ جاؤ کہیں اس ثواب سے
محروم
ہو نہ جاؤ کہیں اس ثواب سے
قسمت
میں ہے تو جا کے ملو آفتاب سے
سب
لوگ مضطرب ہیں اسی اضطراب سے
گزرے
گی کیسے اب اگر جا گے نہ خواب سے
جب
بھی ہلے ہیں ہونٹ وہ نازک گلاب سے
کانٹے
بھی جیسے ہو گئے ہوں لاجواب سے
دل
کو یقینِ تازہ ملا ان کو دیکھ کر
میں
بال بال بچ گیا یوم الحساب سے
یہ
نور آسمان سے اترا نہ ہو کہیں
بڑھ
کر چمک رہا ہے مہ و آفتاب سے
زندہ
ہے حسن آج بھی اللہ کی قسم!
آواز
آ رہی ہے مسلسل کتاب سے
نور
و ظہورِ قدرتِ ثانی! خدا گواہ
بگڑی
سنور گئی ہے ترے انتخاب سے
''آخر کنند دعوٰئِ حُبِّ پیمبرم''
مالک
اِنہیں نجات دے اب اس عذاب سے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں