کلامِ
مختار ؔ
8۔ درویشانِ قادیان
جو قادیان کو مسکن بنائے
بیٹھے ہیں
وہ اپنے خون میں گویا
نہائے بیٹھے ہیں
یہ داروگیر ،یہ ہنگامہ
ہائے غارت وقتل
مگر وفا انہیں لائی ہے آئے
بیٹھے ہیں
نہ ہمنوا ہے نہ ہمدرد کوئی
کوسوں تک
جو گردوپیش ہیں سب خار
کھائے بیٹھے ہیں
محافظیں ہوں یا ساکنینِ
قرب وجوار
سب ان کے قتل کا بیڑا اٹھا
ئے بیٹھے ہیں
جہاں یقینِ ہلاکت ہو کون
جاتا ہے
یہ حوصلہ ہے انہیں کاکہ آ ئے
بیٹھے ہیں
طرح طرح کے حوادث سے ہورہے
ہیں دوچار
طرح طرح کے مصائب اٹھا ئے
بیٹھے ہیں
جلا وطن ہوئے لاکھوں ہی
جبرِ اعداء سے
یہ سن کے حلقۂ اعداء میں آ
ئے بیٹھے ہیں
بٹھائیں لاکھ نہ بیٹھی کسی
کی دھاک ان پر
کہ یہ تو جان سے بھی ہاتھ
اٹھا ئے بیٹھے ہیں
نہ موت کا کوئی کھٹکا نہ
زیست کی پروا
کہ موت و زیست کا جھگڑا
چکا ئے بیٹھے ہیں
لگے ہوئے ہیں مٹانے پہ ان
کے اہلِ زمیں
یہ آسمان سے آنکھیں لگا ئے
بیٹھے ہیں
عدو نہال کہ محصور کرلیا
ہے انھیں
یہ خوش کہ ہم درِجنت ہی آ ئے
بیٹھے ہیں
جفائے غیر سے اُٹھ جائیں
یہ معاذاللہ
مقدر اب انھیں جو کچھ دکھا
ئے بیٹھے ہیں
انھیں تو ہے یہیں رہنا رہے
کہ سر نہ رہے
جو پیش آنی ہے وہ پیش آ ئے
بیٹھے ہیں
درِ حبیب سے اٹھے ہیں یہ
نہ اٹھیں گے
اب اس میں جان بھی جائے تو
جائے ، بیٹھے ہیں
الگ تھلگ ہیں ۔کسی سے نہ
لاگ ہے نہ لگاؤ
تو کس لئے انھیں کوئی اٹھا
ئے ،بیٹھے ہیں
نہ ماسوا سے تمنا،نہ التجا
نہ غرض
بس ایک ذات سے یہ لَو لگا ئے
بیٹھے ہیں
اُسی سے مانگ رہے ہیں جو
مانگنا ہے انہیں
کسی کی راہ میں آنکھیں
بچھا ئے بیٹھے ہیں
درِ کریم سے پھرتا نہیں
کوئی محروم
مرے کریم تیرے در پر آ ئے
بیٹھے ہیں
ہمیشہ سایۂ رحمت میں ہیں رہیں مختاؔر
جو قادیان کو مسکن بنا ئے بیٹھے ہیں
(حیات حضرت مختار صفحہ299-300)
حضرت حافظ سید مختار احمد مختار ؔشاہجہانپوری صاحب ؓ