صفحات

جمعہ، 1 جنوری، 2016

9۔وفات مسیح ناصری علیہ السلام

وفات مسیح ناصری علیہ السلام

کیوں نہیں لوگو تمہیں حق کا خیال؟
دل میں اُٹھتا ہے مرے سَو سَو اُبال

ابن مریم مر گیا حق کی قسم
داخلِ جنت ہوا وہ محترم

مارتا ہے اُس کو فرقاں سر بسر
اس کے مرجانے کی دیتا ہے خبر

وہ نہیں باہر رہا اموات سے
ہوگیا ثابت یہ تیس آیات سے

کو ئی مُردوں سے کبھی آیا نہیں
یہ تو فرقاں نے بھی بتلا یا نہیں

عہد شد از کردگار بے چگوں
غور کن در أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ

اے عزیزو!! سوچ کر دیکھو ذرا
موت سے بچتا کوئی دیکھا بھلا

یہ تو رہنے کا نہیں پیارو مکاں
چل بسے سب انبیاء و راستاں

ہاں نہیں پاتا کوئی اس سے نجات
یونہی باتیں ہیں بنائیں واہیات

کیوں تمہیں انکار پر اصرار ہے
ہے یہ دین یا سیرت کفّار ہے

برخلاف نصّ یہ کیاجوش ہے
سوچ کر دیکھو اگر کچھ ہوش ہے

کیوں بنایا ابن مریم کو خدا
سنت اللہ سے وہ کیوں باہر رہا

کیوں بنایا اس کو باشانِ کبیر
غیب دان و خالق حیّ و قدیر

مرگئے سب پر وہ مرنے سے بچا
اب تلک آئی نہیں اس پر فنا

ہے وہی اکثر پرندوں کا خدا
اس خدادانی پہ تیرے مرحبا

مولوی صاحب یہی توحید ہے؟
سچ کہو کس دیو کی تقلید ہے؟

کیایہی توحیدِ حق کا راز تھا
جس پہ برسوں سے تمہیں اک ناز تھا

کیا بشر میں ہے خدائی کا نشان؟
الاماں ایسے گماں سے الاماں!

ہے تعجب آپ کے اس جوش پر
فہم پر اور عقل پر اور ہوش پر

کیوں نظر آتا نہیں راہِ صواب؟
پڑ گئے کیسے یہ آنکھوں پرحجاب

کیایہی تعلیمِ فرقاں ہے بھلا
کچھ تو آخر چاہیئے خوفِ خدا

مومنوں پر کفر کا کرنا گماں
ہے یہ کیا ایمانداروں کا نشاں؟

ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں
دل سے ہیں خدّام ختم المرسلیں

شرک اور بدعت سے ہم بیزارہیں
خاکِ راہِ احمدؐ مختار ہیں

سارے حکموں پر ہمیں ایمان ہے
جان و دل اس راہ پر قربا ن ہے

دے چکے دل اب تنِ خاکی رہا
ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا

تم ہمیں دیتے ہو کافر کا خطاب
کیوں نہیں لوگو تمہیں خوف عقاب

سخت شورے اوفتاد اندر زمیں
رحم کن برخلق اے جاں آفریں

کچھ نمونہ اپنی قدرت کا دکھا
تجھ کو سب قدرت ہے ،اے ربّ الورا

ازالہءاوہام حصہ دوم   صفحہ764مطبوعہ 1891ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں