درثمین صفحہ 7۔8
4۔عیسائیوں سے خطاب
آؤ عیسائیو! ادھر آؤ!
نور حق دیکھو راہ حق پاؤ!
جس قدر خوبیاں ہیں فرقان میں
کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ
سرپہ خالق ہے اس کو یاد کرو
یوں ہی مخلوق کو نہ بہکاؤ
کب تلک جھوٹ سے کرو گے پیار
کچھ تو سچ کو بھی کام فرماؤ
کچھ تو خوف خدا کرو لوگو
کچھ تو لوگو خدا سے شرماؤ
عیش دنیا سدا نہیں پیارو
اس جہاں کو بقا نہیں پیارو
یہ تو رہنے کی جا نہیں پیارو
کوئی اس میں رہا نہیں پیارو
اس خرابہ میں کیوں لگاؤ دل
ہاتھ سے اپنے کیوں جلاؤ دل
کیوں نہیں تم کو دینِ حق کا خیال
ہائے سو سو اٹھے ہے دل میں ابال
کیوں نہیں دیکھتے طریق صواب
کس بلا کا پڑا ہے دل پہ حجاب
اس قدر کیوں ہے کین و استکبار
کیوں خدا یاد سے گیا یک بار
تم نے حق کو بھلا دیا ہیہات
دل کو پتھر بنا دیا ہیہات
اے عزیزو سنو کہ بے قرآں
حق کو ملتا نہیں کبھی انساں
جن کو اس نور کی خبر ہی نہیں
ان پہ اس یار کی نظر ہی نہیں
ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر
کہ بناتا ہے عاشق دلبر
جس کا ہے نام قادر اکبر
اس کی ہستی سے دی ہے پختہ خبر
کوئے دلبر میں کھینچ لاتا ہے
پھر تو کیا کیا نشان دکھاتا ہے
دل میں ہر وقت نور بھرتا ہے
سینہ کو خوب صاف کرتا ہے
اس کے اوصاف کیا کروں میں بیاں
وہ تو دیتا ہے جاں کو ادراک جاں
وہ تو چمکا ہے نیر اکبر
اس سے انکار ہوسکے کیونکر
وہ ہمیں دلستاں تلک لایا
اس کے پانے سے یار کو پایا
بحر حکمت ہے وہ کلام تمام
عشق حق کا پلا رہا ہے جام
بات جب اس کی یاد آتی ہے
یاد سے ساری خلق جاتی ہے
سینہ میں نقش حق جماتی ہے
دل سے غیر خدا اٹھاتی ہے
درد مندوں کی ہے دوا وہی ایک
ہے خدا سے خدا نما وہی ایک
ہم نے پایا خور ہدیٰ وہی ایک
ہم نے دیکھا ہے دلربا وہی ایک
اس کے منکر جو بات کہتے ہیں
یونہی اک واہیات کہتے ہیں
بات جب ہوکہ میرے پاس آویں
میرے منہ پر وہ بات کہہ جاویں
مجھ سے اس دلستاں کا حال سنیں
مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں
آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی
نہ سہی یوں ہی امتحان سہی
براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 268مطبوعہ
1882ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں