صفحات

جمعہ، 1 جنوری، 2016

35۔اِنذاروتبشیر

اِنذاروتبشیر

پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ کے آنے کے دن
زلزلہ کیا ہے اِس جہاں سے کُوچ کر جانے کے دن

تُم تو ہو آرام میں ۔پر اپنا قصہ کیا کہیں
پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے سخت گھبرانے کے دن

کیوں غضب بھڑکا؟ خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو!
ہو گئے ہیں اس کا موجب میرے جھٹلانے کے دن

غیر کیا جانے کہ غیرت اُس کی کیا دکھلائے گی
خود بتائے گا انھیں وہ یار بتلانے کے دن

وہ چمک دکھلائے گا اپنے نشان کی پنج بار
یہ خدا کا قول ہے سمجھو گے سمجھانے کے دن

طالبو! تم کو مبارک ہو کہ اب نزدیک ہیں
اُس مرے محبوب کے چہرہ کے دکھلانے کے دن

وہ گھڑی آتی ہے جب عیسٰی پکاریں گے مجھے
اب تو تھوڑے رہ گئے دجال کہلانے کے دن

اے مِرے پیارے! یہی میری دعا ہے روز و شب
گود میں تیری ہوں ہم اُس خونِ دِل کھانے کے دن

کرمِ خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
فضل کا پانی پلا اس آگ برسانے کے دن

اے مرے یارِ یگانہ اے مری جاں کی پناہ
کر وُہ دِن اپنے کرم سے دیں کے پھیلانے کے دن

پھر بہارِ دیں کو دِکھلا اے مرے پیارے قدیر
کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں کے بہکانے کے دن

دن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے
اے مِرے سُورج دِکھا اس دیں کے چمکانے کے دن

دل گھٹا جاتا ہے ہر دم جاں بھی ہے زیر و زبر
اک نظر فرما کہ جلد آئیں ترے آنے کے دن

چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجئے غم سے رہا
کب تلک لمبے چلے جائیں گے ترسانے کے دن

کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شور ہے
کیا مِرے دلدار تُو آئے گا مَر جانے کے دن

ڈوبنے کو ہے یہ کشتی۔ آ مِرے اے ناخُدا
آگئے اس باغ پر اے یار مُرجھانے کے دن

تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو
ورنہ دیں میّت ہے اور یہ دن ہیں دفنانے کے دن

اِک نشاں دکھلا کہ اب دِیں ہو گیا ہے بے نشاں
دل چلا ہے ہاتھ سے لا جلد ٹھہرانے کے دن

میرے دل کی آگ نے آخر دکھایا کچھ اثر
آ گئے ہیں اب زمیں پر آگ بھڑکانے کے دن

جب سے میرے ہوش غم سے دیں کے ہیں جاتے رہے
طور دنیا کے بھی بدلے ایسے دیوانے کے دن

چاند اور سورج نے دکھلائے ہیں دو داغِ کسوف
پھر زمیں بھی ہو گئی بے تاب تھرّانے کے دن

کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا
لرزہ آیا اس زمیں پر اس کے چِلّانے کے دن

صبر کی طاقت  جو تھی مجھ میں وہ پیارے اب نہیں
میرے دلبر اب دِکھا اِس دل کے بہلانے کے دن

دوستو اُس یار نے دیں کی مصیبت دیکھ لی
آئیں گے اِس باغ کے اب جلد لہرانے کے دن

اک بڑی مدت سے دِیں کو کُفر تھا کھاتا رہا
اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن

دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر درپیش ہے
پر یہی ہیں دوستو اُس یار کے پانے کے دن

دیں کی نصرت کے لئے اک آسماں پر شور ہے
اب گیا وقتِ خزاں آئے ہیں پھل لانے کے دن

چھوڑ دو وہ راگ جس کو آسماں گاتا نہیں
اب تو ہیں اے دل کے اندھو! دیں کے گُن گانے کے دن

خدمتِ دیں کا تو کھو بیٹھے ہو بُغض و کیں سے وقت
اب نہ جائیں ہاتھ سے لوگو! یہ پچھتانے کے دن

خاتمہ حقیقۃ الوحی   صفحہ آخرمطبوعہ 1907ء

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں