اشاعتِ دین بزورِ شمشیر
حرام ہے
اب چھوڑ دو جہاد1
کا اے دوستو خیال
دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ
اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا
امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کا اب
اختتام ہے
اب آسماں سے نورِ خدا کا
نزول ہے
اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ
فضول ہے
دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا
اب جہاد
منکر نبی کا ہے جو یہ
رکھتا ہے اعتقاد
کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبیؐ
کی حدیث کو
جوچھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس
خبیث کو
کیوں بھولتے ہو تم یَضَعُ الحَرَب کی خبر
کیا یہ نہیں بخاری میں
دیکھو تو کھول کر
فرما چکا ہے سیدِ کونین
مصطفٰےؐ
عیسیٰ مسیح جنگوں کا کردے
گا التوا
جب آئے گا تو صلح کو وہ
ساتھ لائے گا
جنگوں کے سِلسلے کو وہ
یکسر مٹائے گا
پیویں گے ایک گھاٹ پہ شیر
اور گوسپند
کھیلیں گے بچے سانپوں سے
بے خوف دبے گزند
یعنی وہ وقت امن کا ہوگا
نہ جنگ کا
بُھولیں گے لوگ مشغلہ تیرو
تفنگ کا
یہ حکم سُن کے بھی جو
لڑائی کو جائے گا
وہ کافروں سے سخت ہزیمت
اُٹھائے گا
اِک معجزہ کے طور سے یہ
پیشگوئی ہے
کافی ہے سوچنے کو اگر اہل
کوئی ہے
القصہ یہ مسیح کے آنے کا
ہے نشاں
کردے گا ختم آکے وہ دیں کی
لڑائیاں
ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں
وہ زماں نہیں
اب قوم میں ہماری وہ تاب و
تواں نہیں
اب تم میں خود وہ قوت و
طاقت نہیں رہی
وہ سلطنت وہ رعب وہ شوکت
نہیں رہی
وہ نام وہ نمود وہ دولت
نہیں رہی
وہ عزمِ مقبلا نہ وہ ہمت
نہیں رہی
وہ علم وہ صلاح وہ عفت
نہیں رہی
وہ نور اور وہ چاند سی
طلعت نہیں رہی
وہ درد وہ گداز وہ رقت نہیں
رہی
خلقِ خدا پہ شفقت و رحمت
نہیں رہی
دل میں تمہارے یار کی
اُلفت نہیں رہی
حالت تمہاری جاذب نصرت
نہیں رہی
حمق آگیا ہے سر میں وہ
فطنت نہیں رہی
کسل آگیا ہے دل میں جلادت
نہیں رہی
وہ علم و معرفت وہ فراست
نہیں رہی
وہ فکر وہ قیاس وہ حکمت
نہیں رہی
دُنیاو دیں میں کچھ بھی
لیاقت نہیں رہی
اب تم کو غیر قوموں پہ
سبقت نہیں رہی
وہ اُنس و شوق ووجد وہ
طاعت نہیں رہی
ظلمت کی کچھ بھی حدّو
نہایت نہیں رہی
ہر وقت جھوٹ۔ سچ کی تو
عادت نہیں رہی
نورِ خدا کی کچھ بھی علامت
نہیں رہی
سو سو ہے گند دل میں طہارت
نہیں رہی
نیکی کے کام کرنے کی رغبت
نہیں رہی
خوانِ تہی پڑا ہے وہ نعمت
نہیں رہی
دیں بھی ہے ایک قشر حقیقت
نہیں رہی
مولیٰ سے اپنے کچھ بھی
محبت نہیں رہی
دل مر گئے ہیں نیکی کی
قدرت نہیں رہی
سب پر یہ اِک بلا ہے کہ
وحدت نہیں رہی
اِک پُھوٹ پڑ رہی ہے مودّت
نہیں رہی
تم مر گئے تمہاری وہ عظمت
نہیں رہی
صورت بگڑ گئی ہے وہ صورت
نہیں رہی
اب تم میں کیوں وہ سیف کی
طاقت نہیں رہی
بھید اس میں ہے یہی کہ وہ
حاجت نہیں رہی
اب کوئی تم پہ جبر نہیں
غیر قوم سے
کرتی نہیں ہے منع صلوٰۃ
اور صوم سے
ہاں آپ تم نے چھوڑ دیا دیں
کی راہ کو
عادت میں اپنی کر لیا فسق
و گناہ کو
اب زندگی تمہاری تو سب
فاسقانہ ہے
مومن نہیں ہو تم کہ قدم کا
فرانہ ہے
اے قوم !تم پہ یار کی اب
وہ نظر نہیں
روتے رہو دعاؤں میں بھی وہ
اثر نہیں
کیونکر ہو وہ نظر کہ
تمہارے وہ دل نہیں
شیطاں کے ہیں خدا کے پیارے
وہ دل نہیں
تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب
چاک ہو گئے
جتنے خیال دل میں تھے
ناپاک ہو گئے
کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ
خاک ہو گئے
فاقی جو تھے وہ ظالم و
سفّاک ہو گئے
اب تم تو خود ہی موردِ
خشمِ خدا ہوئے
اُس یار سے بشامتِ عصیاں
جُدا ہوئے
اب غیروں سے لڑائی کے معنے
ہی کیا ہوئے
تم خود ہی غیرین کے محلِّ
سزا ہوئے
سچ سچ کہو کہ تم میں امانت
ہے اب کہاں
وہ صدق اور وہ دین و دیانت
ہے اب کہاں
پھر جبکہ تم میں خود ہی وہ
ایماں نہیں رہا
وہ نور مومنانہ وہ عرفاں
نہیں رہا
پھر اپنے کفر کی خبر اے
قوم لیجیئے
آیت علیکم انفسکم یاد کیجیئے
ایسا گماں کہ مہد ئ خونی
بھی آئے گا
اور کافروں کے قتل سے دیں
کو بڑھائے گا
اے غافلو! یہ باتیں سراسر
دروغ ہیں
بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور
بے فروغ ہیں
یارو جو مرد آنے کو تھا وہ
تو آچکا
یہ راز تم کوشمس و قمر بھی
بتا چکا
اب سال سترہ١٧
بھی صدی سے گذر گئے
تم میں سے ہائے سوچنے والے
کِدھر گئے
تھوڑے نہیں نشاں جو دکھائے
گئے تمھیں
کیا پاک راز تھے جو بتائے
گئے تمھیں
پر تم نے اُن سے کچھ بھی
اُٹھایا نہ فائدہ
مُنہ پھیر کر ہٹا دیا تم
نے یہ مائدہ
بخلوں سے یارو باز بھی
آؤگے یا نہیں
خو اپنی پاک صاف بناؤ گے
یا نہیں
باطل سے میل دل کی ہٹاؤ گے
یا نہیں
حق کی طرف رجوع بھی لاؤ گے
یا نہیں
اب عذر کیا ہے کچھ بھی
بتاؤگے یا نہیں
مخفی جو دل میں ہے وہ
سُناؤ گے یا نہیں
آخر خدا کے پاس بھی جاؤ گے
یا نہیں
اُس وقت اُس کو مُنہ بھی
دکھاؤ گے یا نہیں
تم میں سے جس کو دین و
دیانت سے ہے پیار
اب اُس کا فرض ہے کہ وہ دل
کرکے اُستوار
لوگوں کو یہ بتائے کہ وقتِ
مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور
قبیح ہے
ہم اپنا فرض دوستو اب کر
چکے ادا
اب بھی اگر نہ سمجھو تو
سمجھائیگا خُدا
1۔یہاں جہاد سے مراد اسلام
کوبزورشمشیر پھیلانا ہےجو کہ غیر اسلامی نظریہ ہے۔
ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ26مطبوعہ 1902ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں