جوشِ صداقت
کیوں نہیں لوگو تمھیں حق کا
خیال
دِل میں آتا ہے مِرے سَو سَو
اُبال
آنکھ تر ہے دِل میں میرے درد
ہے
کیوں دِلوں پر اِس قدر یہ گرد
ہے
دِل ہوا جاتا ہے ہردم بے قرار
کِس بیاباں میں نکالوں یہ غبار
ہوگئے ہم درد سے زیر و زبر
مَر گئے ہم پر نہیں تم کو خبر
آسماں پر غافلو اِک جوش ہے
کچھ تو دیکھو گر تمھیں کچھ
ہوش ہے
ہوگیا دیں کفر کے حملوں سے
چُور
چُپ رہے کب تک خداوندِ غیور
اِس صدی کا بیسواں اب سال ہے
شرک و بدعت سے جہاں پامال ہے
بدگماں کیوں ہو خدا کچھ یاد
ہے
افترا کی کب تلک بنیاد ہے
وہ خدا میرا جو ہے جو ہر شناس
اِک جہاں کو لارہا ہے میرے
پاس
لعنتی ہوتا ہے مَردِ مُفتری
لعنتی کو کب ملے یہ سروری
اعجاز احمدی صفحہ32مطبوعہ 1902ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں