قادیان کے آریہ
آریوں پر ہے صد ہزار افسوس
دل میں آتا ہے بار بار افسوس
ہوگئے حق کے سخت نافرماں
کر دیا دیں کو قوم پر قُرباں
وہ نشاں جس کی روشنی سے جہاں
ہوکے بیدار ہوگیا لرزاں
ان نشانوں سے ہیں یہ انکاری
پَر کہاں تک چلے گی طرّاری
ان کے باطن میں اِک اندھیرا
ہے
کین و نخوت نے آکے گھیرا ہے
لڑرہے ہیں خدائے یکتا سے
باز آتے نہیں ہیں غوغا سے
قوم کے خوف سے وہ مرتے ہیں
سو نشاں دیکھیں کب وہ ڈرتے
ہیں
موت لیکھو بڑی کرامت ہے
پر سمجھتے نہیں یہ شامت ہے
میرے مالک !تو ان کو خود سمجھا
آسماں سے پھر اِک نشان دکھلا
قادیان کے آریہ اورہم ٹائیٹل پیج صفحہ2مطبوعہ
1907ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں