شان اسلام
اسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ
یہی ہے
اے سونے والو جاگو! شمس الضحٰی
یہی ہے
مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں
بنایا
اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا
یہی ہے
وہ دِلستاں نہاں ہے کِس راہ
سے اُس کو دیکھیں
اِن مشکلوں کا یارو مشکل کُشا
یہی ہے
باطن سِیہ ہیں جن کے اِس دیں سے ہیں وہ منکر
پر اَے اندھیرے والو! دِل کا
دِیا یہی ہے
دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم
نے دیکھی بھالیں
آخر ہوا یہ ثابت دَارُ الشفاء
یہی ہے
سب خشک ہوگئے ہیں جتنے تھے
باغ پہلے
ہر طرف مَیں نے دیکھا بُستاں
ہرا یہی ہے
دنیا میں اِس کا ثانی کوئی
نہیں ہے شربت
پی لو تم اِس کو یارو! آبِ
بقا یہی ہے
اِسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے
سورج
پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن۔ بَلا یہی ہے
جب کُھل گئی سچائی پھر اُس
کو مان لینا
نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا
یہی ہے
جو ہو مفید لینا جو بد ہو اس
سے بچنا
عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا
یہی ہے
ملتی ہے بادشاہی اِس دیں سے
آسمانی
اے طالبانِ دولت ظلِّ ہُما
یہی ہے
سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں کا آشیانہ
اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما
یہی ہے
سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں
کا آشیانہ
اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما
یہی ہے
سَو سَو نشاں دکھا کر لاتا
ہے وہ بُلا کر
مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس
مدّعا یہی ہے
کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں
کو تازہ
اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی
ہے
یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب
تلک ہے تازہ
اے گِرنے والو دوڑو دیں کا
عصا یہی ہے
کِس کام کا وہ دیں ہے جس میں
نشاں نہیں ہے
دیں کی میرے پیارو زرّیں قبا
یہی ہے
افسوس آریوں پر جو ہوگئے ہیں
شپّر
وہ دیکھ کر ہیں مُنکر ظلم و
حِفا یہی ہے
معلوم کر کے سب کچھ محروم ہوگئے
ہیں
کیا اِن نیوگیوں کا ذہنِ رسا
یہی ہے
اِک ہیں جو پاک بندے اِک ہیں
دلوں کے گندے
جیتیں گے صادق آخر حق کا مزا
یہی ہے
اِن آریوں کا پیشہ ہر دم ہے
بدزبانی
ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا
یہی ہے
پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں
ہیں گالی
پر اِن سِیہ دِلوں کا شیوہ
سدا یہی ہے
افسوس سبّ و توہیں سب کا ہوا
ہے پیشہ
کس کو کہوں کہ اُن میں ہرزہ
درا یہی ہے
آخر یہ آدمی تھے پھر کیوں ہوئے
درندے
کیا جون اِن کی بگڑی یا خود
قضا یہی ہے
جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے
ہے عاری
کِس کِس کا نام لیویں ہر سُو
وَبا یہی ہے
لیکھو کی بدزبانی کا رد ہوئی
تھی اُس پر
پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و
خطا یہی ہے
اپنے کئے کا ثمرہ لیکھو نے
کیسا پایا
آخر خدا کے گھر میں بَد کی
سزا یہی ہے
نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں
بھی دینا
کُتّوں سا کھولنا مُنہ تخمِ
فنا یہی ہے
میٹھے بھی ہو کے آخر نشتر ہی
ہیں چلاتے
اِن تیرہ باطنوں کے دِل میں
دغا یہی ہے
جاں بھی اگرچہ دیویں ان کو
بطور احساں
عادت ہے اِن کی کفراں رنج و
عنا یہی ہے
ہندو کچھ ایسے بگڑے دِل پُر
ہیں بغض و کیں سے
ہر بات میں ہے تو ہیں طرزِ
ادا یہی ہے
جاں بھی ہے اِن پہ قرباں گر
دِل سے ہوویں صافی
پس ایسے بدکنوں کا مجھ کو گِلا
یہی ہے
احوال کیا کہوں میں اس غم
سے اپنے دل کا
گویا کہ ان غموں کا مہماں
سرا یہی ہے
لیتے ہی جنم اپنا دشمن ہوا
یہ فرقہ
آخر کی کیا اُمیدیں جب ابتدا
یہی ہے
دل پھٹ گیا ہمارا تحقیر سُنتے
سُنتے
غم تو بہت ہیں دِل میں پر جاں
گزا یہی ہے
دنیا میں گرچہ ہوگی سَو قسم
کی بُرائی
پاکوں کی ہتک کرنا سب سے بُرا
یہی ہے
غفلت پہ غافلوں کی روتے رہے
ہیں مُرسل
پر اِس زماں میں لوگو !نوحہ
نیا یہی ہے
ہم بد نہیں ہیں کہتے اُن کے
مقدسوں کو
تعلیم میں ہماری حکمِ خدا یہی
ہے
ہم کو نہیں سکھاتا وہ پاک بدزبانی
تقویٰ کی جڑ یہی ہے صدق و صفا
یہی ہے
پر آریوں1 کے دیں
میں گالی بھی ہے عبادت
کہتے ہیں سب کو جھوٹے کیا اتّقا
یہی ہے
"جتنے نبی تھے آئے موسیٰ
ہو یا کہ عیسیٰ
مکّار ہیں وہ سارے "اِن
کی نِدا یہی ہے
"اِک وید ہے جو سچّا باقی
کتابیں ساری
جھوٹی ہیں اور جعلی اِک رہ
نما یہی ہے"
یہ ہے خیال اِن کا پَربَتْ
بنایا تنکا
پر کیا کہیں جب ان کا فہم و
ذکا یہی ہے
کیڑا جو دَب رہا ہے گوبر کی
تہ کے نیچے
اُس کے گماں میں اُس کا ارض
و سما یہی ہے
ویدوں2 کا سب خلاصہ
ہم نے نیوگ پایا
اِن پُستکوں کی رُو سے کارج
بَھلا یہی ہے
جس اِستری کو لڑکا پیدا نہ
ہو پِیا سے
ویدوں کی رُو سے اُس پر واجب
ہوا یہی ہے
جب ہے یہی اشارہ پھر اُس سے
کیا ہے چارہ
جب تک نہ ہوویں گیارہ لڑکے
رَوا یہی ہے
ایشر کے گُن عجب ہیں ویدوں
میں اے عزیزو!
اُس میں نہیں مروّت ہم نے سُنا
یہی ہے
دے کر نجات و مکتی پھر چھینتا
ہے سب سے
کیسا ہے وہ دیالو جس کی عطا
یہی ہے
ایشر بنا ہے مُنہ سے خالق نہیں
کِسی کا
رُوحیں ہیں سب انادی پھر کیوں خدا یہی ہے
رُوحیں اگر نہ ہوتیں ایشر سے
کچھ نہ بنتا
اُس کی حکومتوں کی ساری بِنا
یہی ہے
اُن کا ہی مُنہ ہے تکتا ہر
کام میں جو چاہے
گویا وہ بادشاہ ہیں اُن کا
گدا یہی ہے
القصّہ آریوں کے ویدوں کا یہ
خدا ہے
اُن کا ہے جس پہ تکیہ وہ بے
نوا یہی ہے
اے آریو کہو اب ایشر کے ہیں
یہی گُن
جس پر ہو ناز کرتے بولو وہ
کیا یہی ہے؟
ویدوں کو شرم کر کے تم نے بہت
چھپایا
آخر کو راز بستہ اس کا کُھلا
یہی ہے
قدرت نہیں ہے جس میں وہ خاک
ہے ایشر
کیا دینِ حق کے آگے زور آزما
یہی ہے
کچھ کم نہیں بتوں سے یہ ہندوؤں
کا ایشر
سچ پوچھئے تو واللہ بُت دوسرا
یہی ہے
ہم نے نہیں بنائیں یہ اپنے
دل سے باتیں
ویدوں سے اے عزیزو ہم کو مِلا
یہی ہے
فطرت ہر اِک بشر کی کرتی ہے
اِس سے نفرت
پھر آریوں کے دِل میں کیونکر
بسا یہی ہے
یہ حکم وید کے ہیں جن کا ہے
یہ نمونہ
ویدوں سے آریوں کو حاصل ہوا
یہی ہے
خوش خوش عمل ہیں کرتے اوباش
سارے اِس پر
سارے نیوگیوں کا اِک آسرا یہی3
ہے
پھر کس طرح وہ مانیں تعلیم
پاک فرقاں
اُن کے تو دل کا رہبرا اور
مقتدا یہی ہے
جب ہوگئے ہیں ملزم اُترے ہیں
گالیوں پر
ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگِ
جفا یہی ہے
رُکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے
ایک دم بھی
اِن کا تو شغل و پیشہ صبہ و
مسا یہی ہے
کہنے کو وید والے پر دل ہیں
سب کے کالے
پر وہ اُٹھا کے دیکھو اُن میں
بھرا 4یہی ہے
فطرت کے ہیں درندے مُردار ہیں
نہ زندے
ہر دم زباں کے گندے قہرِ خدا
یہی5 ہے
دینِ خدا کے آگے کچھ بَن نہ
آئی آخر
سب گالیوں پہ اُترے دل میں
اُٹھا یہی ہے
شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں
اُن کی ہرگز
وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا
یہی ہے
ہم نے ہے جس کومانا قادر ہے وہ توانا
اُس نے ہے کچھ دکھانا اُس سے
رجا یہی ہے
اُن سے دو چار ہونا عزّت ہے
اپنی کھونا
اُن سے ملاپ کرنا راہِ ریا
یہی ہے
بس اے مرے پیارو! عقبٰی کو
مت بسارو
اِس دیں کو پاؤ یارو بدر الدّجٰی
یہی ہے
مَیں ہوں ستم رسیدہ اُن سے
جو ہیں رمیدہ
شاید ہے آبِ دیدہ واقفِ بڑا
یہی ہے
مَیں دِل کی کیا سُناؤں کس
کو یہ غم بتاؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے مجھ
پر بلا یہی ہے
دیں کے غموں نے مارا اَب دل
ہے پارہ پارہ
دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا
یہی ہے
ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے
ہو ہم سے
اُس یار کی نظر میں شرطِ وفا
یہی ہے
برباد جائیں گے ہم گروہ نہ
پائیں گے ہم
رونے سے لائیں گے ہم دل میں
رجا یہی ہے
وہ دن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں
کر کے باتیں
اَب موت کی ہیں گھاتیں غم کی
کتھا یہی ہے
جلد آپیارے ساقی اب کچھ نہیں
ہے باقی
دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی
ہے
شکرِ خدائے رحماں جس نے دیا
ہے قرآں
غنچے تھے سارے پہلے اب گُل
کھلا یہی ہے
کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف
اُس کا گہنا
دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا
یہی ہے
دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں
جیسی خوابیں
خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ
ہدیٰ یہی ہے
اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس
سے پایا
راتیں تھیں جتنی گزریں اَب
دن چڑھا یہی ہے
اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی
بُلائے
سوتے ہوئے جگائے بس حق نما
یہی ہے
پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب
بگاڑے
دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا
یہی ہے
کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت
تھا لیکن
خوبی و دِلبری میں سب سے سوا
یہی ہے
یوسف تو سُن چکے ہو اِک چاہ
میں گرا تھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا
یہی ہے
اِسلام کے محاسن کےونکر بیاں
کروں میں
سب خشک باغ دیکھے پھولا پھلا
یہی ہے
ہر جاز میں کے کیڑے دیں کے
ہوئے ہیں دشمن
اسلام پر خدا سے آج ابتلا یہی
ہے
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو یہ دیکھ
کر کہ ہر سو
اِس غم سے صادقوں کا آہ وبکا
یہی ہے
سب مشرکوں کے سر پر یہ دیں
ہے ایک خنجر
یہ شرک سے چھڑاوے اُن کو اذیٰ
یہی ہے
کیوں ہوگئے ہیں اس کے دشمن
یہ سارے گمراہ
وہ رہنما ئے رازِ چون و چرا یہی ہے
دیں غار میں چُھپا ہے اِک شور
کفر کا ہے
اب تم دُعائیں کر لو غارِ حرا
یہی ہے
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور
سارا
نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا
یہی ہے
سب پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے
سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ
یہی ہے
پہلوں سے حوب تر ہے خوبی میں
اِک قمر ہے
اُس پر ہر ایک نظر ہے بدرالدّجٰی
یہی ہے
پہلے تو رہ میں ہارے پار اِس
نے ہیں اُتارے
مَیں جاؤں اِس کے وارے بس ناخدا
یہی ہے
پَردے جو تھے ہٹائے اندر کی
رہ دکھائے
دِل یار سے ملائے وہ آشنا یہی
ہے
وہ یارِ لامکانی۔ وہ دلبرِ
نہانی
دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما
یہی ہے
وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاجِ
مرسلیں ہے
وہ طیّب وامیں ہے اُس کی ثنا
یہی ہے
حق سے جو حکم آئے اُس نے وہ
کر دکھائے
جو راز تھے بتائے نعم العطا
یہی ہے
آنکھ اُس کی دُوربیں ہے دِل
یار سے قریں ہے
ہاتھوں میں شمع دیں عین الضیا
یہی ہے
جو راز دیں تھے بھارے اُس نے
بتائے سارے
دولت کا دینے والا فرماں روا
یہی ہے
اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا
ہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس
فیصلہ یہی ہے
وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے
خزانہ
باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا
یہی ہے
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد
ہے تُو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ
لقا یہی ہے
ہم تھے دِلوں کے اندھے سَو
سَو دِلوں پہ پھندے
پھر کھولے جس نے جندے6
وہ مجتبٰی یہی ہے
اے میرے رب رحماں تیرے ہی ہیں
یہ احساں
مشکل ہو تجھ سے آساں ہر دم
رجا یہی ہے
اے میرے یارجانی خود کر تو
مہربانی!
ورنہ بلائے دنیا اِک اژدھا
یہی ہے
دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا
صحیفہ چوموں
قرآں کے گِرد گھوموں کعبہ مرا
یہی ہے
جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ
بھارے
مُنہ مت چُھپا پیارے میری دوا
یہی ہے
کہتے ہیں جوش اُلفت یکساں نہیں
ہے رہتا
دِل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا
یہی ہے
ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے
وہ دلبر
جیتا ہوں اِس ہوس سے میری غذا
یہی ہے
دنیا میں عشق تیرا باقی ہے
سب اندھیرا
معشوق ہے تُو میرا عشقِ صفا
یہی ہے
مشتِ غبار اپنا تیرے لئے اُڑایا
جب سے سُنا کہ شرطِ مہر و وفا
یہی ہے
دلبر کا درد آیا حرفِ خودی
مٹایا
جب مَیں مرا، جلِایا، جامِ
بقا یہی ہے
اِس عشق میں مصائب سَو سَو
ہیں ہر قدم میں
پر کیا کروں کہ اُس نے مجھ
کو دیا یہی ہے
حرفِ وفا نہ چھوڑوں اِس عہد
کو نہ توڑوں
اُس دلبرِ ازل نے مجھ کو کہا
یہی ہے
جب سے ملا وہ دلبر دشمن ہیں
میرے گھر گھر
دِل ہوگئے ہیں پتھر قدر و قضا
یہی ہے
مجھ کو ہیں وہ ڈراتے پھر پھر
کے درپہ آتے
تیغ و تبر دکھاتے ہر سُو ہوا
یہی ہے
دلبر کی رہ میں یہ دل ڈرتا
نہیں کسی سے
ہشیار ساری دنیا اِک باؤلا
یہی ہے
اِس راہ میں اپنے قصّے تم کو
مَیں کیا سُناؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے سب ماجرا
یہی ہے
دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں
اِک نظارہ
دےوانہ مت کہو تم عقلِ رسا
یہی ہے
اے میرے یارجانی کر خود ہی
مہربانی
مت کہہ کہ لَن تَرَانِیْ تجھ
سے رجا یہی ہے
فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم
میں جانکنی ہے
عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا
یہی ہے
تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے
عیب دُوری
طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بَلا
یہی ہے
تجھ میں وفا ہے پیارے سچے ہیں
عہد سارے
ہم جا پڑے کنارے جائے بُکا
یہی ہے
ہم نے نہ عہد پالا یاری میں
رخنہ ڈالا
پر تُو ہے فضل والا ہم پر کُھلا
یہی ہے
اے میرے دل کے درماں ہجراں
ہے تیرا سوزاں
کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں
گزا یہی ہے
اِک دیں کی آفتوں کا غم کھا
گیا ہے مجھ کو
سینہ پہ دشمنوں کے پتّھر پڑا
یہی ہے
کیونکر تبہ وہ ہووے کیونکر
فنا وہ ہووے
ظالم جو حق کا دشمن وہ سوچتا
یہی ہے
ایسا زمانہ آیا جس نے غضب ہے
ڈھایا
جو پیستی ہے دیں کو وہ آسیا
یہی ہے
شادابی و لطافت اِس دیں کی
کیا کہوں مَیں
سب خشک ہوگئے ہیں پُھولا پَھلا یہی ہے
آنکھیں ہر ایک دیں کی بے نُور
ہم نے پائیں
سُرمہ سے معرفت کے اِک سرمہ
سا یہی ہے
لعلِ یمن بھی دیکھے دُرِّ عدن
بھی دیکھے
سب جوہروں کو دیکھا دل میں
جچا یہی ہے
انکار کر کے اِس سے پچھتاؤگے
بہت تم
بنتا ہے جس سے سونا وہ کیمیا
یہی ہے
پر آریوں کی آنکھیں اندھی ہوئیں
ہیں ایسی
وہ گالیوں پہ اُترے دل میں
پڑا یہی ہے
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو
بدزبان ہے
جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا
یہی ہے
گوہیں بہت درندے انسان کے پوستےں
میں
پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا
یہی ہے
کِس دیں پہ ناز اُن کو جو وید7کے
ہیں حامی
مذہب جو پھل سے خالی وہ کھوکھلا
یہی ہے
اے آریو یہ کیا ہے کیوں دل
بگڑ گیا ہے
اِن شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا
یہی ہے
مجھ کو ہو کیوں ستاتے سَو افترا
بناتے
بہتر تھا باز آتے دُور از بلا
یہی ہے
جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا
تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا
یہی ہے
اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل
دُکھانا
گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا
یہی ہے
اِس دیں کی شان و شوکت یارب
مجھے دکھادے
سب جھوٹے دیں مٹاوے میری دُعا
یہی ہے
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں
تعلق
اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا
یہی ہے
1۔ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور
صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ
2۔اس جگہ وید کے لفظ سے وہ تعلیم مراد ہے جو آریہ سماج والوں نے
اپنے زعم میں ویدوں کے حوالہ سے شائع کی ہے۔ ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم وید کی
اصل حقیقت کو خدا کے حوالہ کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے اس میں کیا
بڑھایا اور کیا گھٹایا جبکہ ہندوستان اور پنجاب میں وید کی پَیروی کا دعویٰ کرنے
والے صدہا مذہب ہیں تو ہم کسی خاص فرقہ کی غلطی کو وید پر کیونکر تھوپ سکتے ہیں۔
پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وید بھی محرف ہو چکا ہے۔ پس بوجہ تحریف اس سے کسی بہتری کی
امید بھی لاحاصل ہے۔ منہ
3۔ یاد رہے کہ وید کی تعلیم سے مراد
ہماری اس جگہ وہ تعلیمیں اور وہ اصول ہیں جن کو آریہ لوگ اس جگہ ظاہرکرتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ نیوگ کی تعلیم وید میں موجود ہےاور بقول ان کے وید بلند آواز سے کہتا ہے کہ
جس کے گھر میں کوئی اولاد نہ ہو یا صرف لڑکیاں ہوں تو اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ
وہ اپنی بیوی کو اجازت دے کہ وہ دوسرے سے ہم بستر ہو اور اس طرح اپنی نجات کے لئے لڑکا
حاصل کرےاور گیارہ لڑکے حاصل کرنے تک یہ تعلق قائم رہ سکتا ہے اور اگر اس کا خاوند
کہیں سفر میں گیا ہوتو خود اس کی بیوی نیوگ کی نیّت سے کسی دوسرے آدمی سے آشنائی کا
تعلق پیدا کر سکتی ہے تا اس طریق سے اولاد حاصل کرلے اور پھر خاوند کے سفر سے واپس
آنے پر یہ تحفہ اس کے آگے پیش کرے اور اُس کو دکھاوے کہ تُو تو مال حاصل کرنے گیا تھا
مگر مَیں نے تیرے پیچھے یہ مال کمایا ہے۔ پس عقل اور انسانی غیرت تجویز نہیں کر سکتی
کہ یہ بے شرمی کا طریق جائز ہو سکے اور کیونکر جائز ہو حالانکہ اس بیوی نے اپنے خاوند
سے طلاق حاصل نہیں کی اور اس کی قیدِ نکاح سے اس کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ افسوس بلکہ
ہزار افسوس کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آریہ لوگ وید کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مگر ہم نہیں
کہہ سکتے کہ درحقیقت یہی تعلیم وید کی ہے ۔ ممکن ہے کہ ہندوؤں کے بعض جوگی جو مجرّد
رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفسانی جذبات ان کو مغلوب کرلیتے ہیں۔انہوں نے یہ باتیں
خود بنا کر وید کی طرف منسوب کردی ہوں یا تحریف کے طور پر وید میں شامل کر دی ہوں۔
کیونکہ محقق پنڈتوں نے لکھا ہے کہ ایک زمانہ وید پر وہ بھی آیا ہے کہ ان میں بڑی تحریف
کی گئی ہے اور اس کے بہت سے پاک مسائل بدلادیئے گئے ہیں۔ ورنہ عقل قبول نہیں کرتی کہ
وید نے ایسی تعلیم دی ہواور نہ کوئی فطرت صحیحہ قبول کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی پاک دامن
بیوی کو بغیر اس کے کہ اُس کو طلاق دے کر شرعی طور پر اُس سے قطع تعلق کرے یونہی اولاد
حاصل کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے اس کو دوسرے سے ہمبستر کراوے کیونکہ یہ تو دیوثوں کا
کام ہے۔ ہاں اگر کسی عورت نے طلاق حاصل کرلی ہو اور خاوند سے کوئی اس کا تعلق نہ رہا
ہو تو اس صورت میں ایسی عور ت کو جائز ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اور اس پر کوئی اعتراض
نہیں ہے اور نہ اس کی پاک دامنی پر کوئی حرف۔ ورنہ ہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ نیوگ
کا نتیجہ اچھا نہیں ہے ۔
جس صورت میں آریہ سماج کے لوگ ایک طرف تو عورتوں کے پردہ کے مخالف ہیں کہ یہ مسلمانوں
کی رسم ہے۔ پھر دوسری طرف جبکہ ہر روز نیوگ کا پاک مسئلہ ان عورتوں کے کانوں تک پہنچتا
رہتا ہے اور ان عورتوں کے دلوں میں جما ہوا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے بھی ہمبستر ہو
سکتی ہیں تو ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی باتوں کے سُننے سے خاص کر جب کہ
ویدوں کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہیں کس قدرناپاک شہوات عورتوں کی جوش ماریں گی بلکہ
وہ تو دس قدم اور بھی آگے بڑھیں گی اور جبکہ پردہ کا پُل بھی ٹوٹ گیا تو ہر ایک سمجھ
سکتا ہے کہ ان ناپاک شہوتوں کا سیلاب کہاں تک خانہ خرابی کرے گا۔ چنانچہ جگن ناتھ اور
بنارس اور کئی جگہ میں اس کے نمونے بھی موجود ہیں۔ کاش! اس قوم میں کوئی سمجھدار پیدا
ہو۔
اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ مکتی حاصل کرنے کے لئے اولاد کی ضرورت کیوں ہے۔
کیا ایسے لوگ جیسے پنڈت دیانند تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ کوئی اولاد ہوئی مکتی
سے محروم ہیں؟ اور ایسی مکتی پر تو لعنت بھیجنا چاہئے کہ اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر
کراکر اور ایسا فعل اس سے کراکر جو عام دنیا کی نظر میں زنا کی صورت میں ہی حاصل ہو
سکتی ہے اور بجز اس ناپاک فعل کے اور کوئی ذریعہ اُس کی مکتی کا نہیں۔ اور یہ بھی ہم
سمجھ نہیں سکتے کہ جو ہزاروں طاقتیں اور قوتیں اور خاصیتیں روحوں اور ذرّات اجسام میں
ہیں وہ سب قدیم سے خودبخود ہیں۔ پرمیشر سے وہ حاصل نہیں ہوئیں۔پھر ایسا پرمیشر کس کام
کا ہے اور اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ اور کیا وجہ کہ اس کو پرمیشر کہاجائے؟ اور کامل
اطاعت کا وہ کیونکر مستحق ہے جبکہ اس کی پرورش کامل نہیں اور جن طاقتوں کو اُس نے آپ
نہیں بنایا اُن کا علم اس کو کیونکر ہے اور جبکہ وہ ایک رُوح کے پیدا کرنے کی بھی قدرت
نہیں رکھتا تو کن معنوں سے اُس کو سرب شکتی مان کہا جاتا ہے جبکہ اُس کی شکتی صرف جوڑنے
تک ہی محدود ہے۔ میرا دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ یہ ناپاک تعلیمیں ویدمیں ہرگز نہیں
ہیں۔ پرمیشر تو تبھی پرمیشر رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک فیض کا وہی مبدء ہو۔ بیدانت والوں
نے بھی اگرچہ غلطیاں کیں مگر تھوڑی سی اصلاح سے ان کا مذہب قابلِ اعتراض نہیں رہتا
مگر دیانند کا مذہب تو سراسر گندہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دیانند نے ان جھوٹے فلسفیوں
اور منطقیوں کی پیروی کی ہے جن کو وید سے کچھ بھی تعلق نہ تھا بلکہ وید کے درپردہ پکّے
دشمن تھے۔ اِسی وجہ سے اس کے مذہب میں پرمیشر کی وہ تعظیم نہیں جو ہونی چاہئے۔ اور
نہ پاک دل جوگیوں کی طرح پرمیشر سے ملنے کے لئے مجاہدات کی تعلیم ہے۔ صرف تعصّب اور
خدا کے پاک نبیوں کو کینہ اور گالیاں دینا ہی یہ شخص بدنصیب اپنے چیلوں کو سکھا گیا
ہے بلکہ یوں کہوکہ ایک زہر کا پیالہ پلا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا سب اعتراض
دیانند کے فرضی ویدوں پر ہے نہ خدا کی کسی کتاب پر۔ واللہ اعلم ۔ منہ
4۔۔ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور
صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ
5۔یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اُن آریہ سماج والوں کی نسبت ہے جنہوں نے اپنے اشتہاروں
اور رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ سے اپنی گندی طبیعت کا ثبوت دے دیا ہے اور ہزارہا
گالیاں خدا کے پاک نبیوں کو دی ہیں۔ جن کی اخبار اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں مگر
شریف طبع لوگ اس جگہ ہماری مراد نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے طریق کو پسند کرتے ہیں۔ منہ
6۔جندے سے مراد اس جگہ قفل ہے۔ چونکہ اس جگہ کوئی شاعری دکھلانا منظور نہیں اورنہ
میں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں اس لئے بعض جگہ مَیں نے پنجابی الفاظ استعمال کئے
ہیں اور ہمیں صرف اردو سے کچھ غرض نہیں اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے۔ شاعری
سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ منہ
7۔یاد رہے کہ وید پر ہمارا کوئی حملہ نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کی تفسیر میں
کیاکیا تصرف کئے گئے آریہ ورت کے صدہا مذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے
ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور باہم اُن کا سخت اختلاف ہے۔ پس ہم اس جگہ
وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں۔ منہ
نوٹ:۔ ایڈیشن اول میں یہ حاشیہ تو موجود ہے لیکن اس شعرکی نشان دہی نہیں کی گئی
جس پر یہ حاشیہ ہے۔ ہم نے مضمون کو دیکھ کر یہ نشان لگایا ہے۔ (ناشر)
قادیان کے آریہ اور ہم مطبوعہ 1907ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں