یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ145۔147
101۔ زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے
تو آسمان سے اُترا خدا ہمارے لئے
اُنہیں غرور کے رکھتے ہیں طاقت و کثرت
ہمیں یہ ناز بہت ہے خدا ہمارے لئے
تمہارے نام پہ جس آگ میں جلائے گئے
وہ آگ پھول ہے وہ کیمیا ہمارے لئے
بس ایک لَو میں اسی لَو کے گرد گھومتے
ہیں
جلا رکھا ہے جو اس نے دیا ہما رے لئے
وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے
وہ ایک شخص دُعا ہی دُعا ہمارے لئے
وہ نور نور دمکتا ہوا سا اِک چہرہ
وہ آئینوں میں حیا ہی حیا ہمارے لئے
درُود پڑھتے ہوئے اس کی دید کو نکلیں
تو صبح پھول بچھائے صبا ہمارے لئے
عجیب کیفیتِ جذب و حال رکھتی ہے
تمہارے شہر کی آب و ہوا ہمارے لئے
دیئے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے
زمین ہے نہ زماں نیند ہے نہ بیداری
وہ چھاؤں چھاؤں سا اک سلسلہ ہمارے
لئے
سخن وروں میں کہیں ایک ہم بھی تھے لیکن
سخن کا اور ہی تھا ذائقہ ہمارے لئے
1985ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں