صفحات

ہفتہ، 15 اکتوبر، 2016

113۔ عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ25۔26

113۔ عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے


عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی
کہ روح گرمیٔ انفاس سے پگھل جائے

محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا
کہ  جانے کون کہاں راستہ بدل جائے

زہے وہ دل جو تمنّائے تازہ تر میں رہے
خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے

میں وہ چراغ سرِ رہ گزارِ دنیا ہوں
جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے

ہر ایک لحظہ یہی آرزو یہی حسرت
جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے

1966ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں