یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ105۔106
80۔ آغاز کرو بدن سے اور پھر
آغاز کرو بدن سے اور پھر
جاں تک میری جاں نچوڑ جاؤ
یہ کیا کہ ملو تو ایک پل کو
صدیوں میں اکیلا چھوڑ جاؤ
رستوں میں قدم قدم ملوں گا
تم عشق کے جس بھی موڑ جاؤ
آئینہ پگھل کہ جڑ رہا ہے
آؤ مجھے پھر سے توڑ جاؤ
میں خواب ہوں اصل ڈھونڈتا ہوں
تم اصل سے خواب جوڑ جاؤ
1980ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں