صفحات

جمعہ، 14 اکتوبر، 2016

116۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ31۔33

116۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں


چاند چہرہ ستارہ آنکھیں

مِرے خدایا !میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں
یہ میرا چہرہ، یہ میری آنکھیں
بجھے ہوئے سے چراغ جیسے
جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں
وہ چاند چہرہ ، ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
جنہوں نے پیماں کیے تھے مجھ سے
رفاقتوں کے، محبتوں کے
کہا تھا مجھ سے کہ اے مسافر رہِ وفا کے
جہاں بھی جائے گا ہم بھی آئیں گے ساتھ تیرے
بنیں گے راتوں میں چاندنی ہم تو دن میں سائے بکھیر دیں گے
وہ چاند چہرہ ،ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
وہ اپنے پیماں رفاقتوں کہ محبتوں کے
شکست کر کے
نہ جانے اب کس کی رہ گزر کا منارۂ روشنی ہوئے ہیں
مگر مسافر کو کیا خبر ہے
وہ چاند چہرہ تو بجھ گیا ہے
ستارہ آنکھیں تو سو گئی ہیں
وہ زلفیں بے سایہ ہوگئی ہیں
وہ روشنی اور وہ سارے مری عطا تھے
سو میری راہوں میں آج بھی ہیں
کہ میں مسافر رہ وفا کا
وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
وہ مہرباں سایہ دار زلفیں
ہزاروں چہروں ہزاروں آنکھوں کا ایک سیلاب تند لے کر
مرے تعاقب میں آرہے ہیں
ہر ایک چہرہ ہے چاند چہرہ
ہیں ساری آنکھیں ستارہ آنکھیں
مہرباں سایہ دار زلفیں
میں کس کو چاہوں،میں کس کو چوموں
میں کس کے سائے میں بیٹھ جاؤں
بچوں کہ طوفاں میں ڈوب جاؤں
کہ میرا چہرہ ،نہ میری آنکھیں
مرے خدایا!میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں

1966ء


عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں