یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ113۔115
84۔ وحشت اسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا
وحشت اسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا
پاگل کو جیسے چاند کا دیدار دیکھنا
اس ہجرتی کو کام ہوا ہے کہ رات دن
بس وہ چراغ اور وہ دیوار دیکھنا
پاؤں میں گھومتی ہے زمیں آسماں تلک
اِس طفلِ شیر خوار کی رفتار دیکھنا
یارب کوئی ستارۂ امید پھر طلوع
کیا ہو گئے زمیں کے آثار دیکھنا
لگتا ہے جیسے کوئی ولی ہے ظہور میں
اب شام کو کہیں کوئی مے خوار دیکھنا
اس وحشتی کا حال عجب ہے کہ اُس طرف
جانا بھی اور جانبِ پندار دیکھنا
دیکھا تھا خواب شاعرِ مومن نے اس لیے
تعبیر میں ملا ہمیں تلوار دیکھنا
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اِک عذاب ہے اخبار دیکھنا
میں نے سنا ہے قُربِ قیامت کا ہے نشاں
بے قامتی پہ جُبّہ و دستار دیکھنا
صدیاں گزر رہی ہیں مگر روشنی وہی
یہ سر ہے یا چراغ سرِ دار دیکھنا
اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کا دن
اب رہ گیا ہے شام کا بازار دیکھنا
دو چار کے سوا یہاں لکھتا غزل ہے کون
یہ کون ہیں یہ کس کے طرفدار دیکھنا
1980ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں