صفحات

ہفتہ، 22 اکتوبر، 2016

96۔ ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ135۔136

96۔ ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے


ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے
ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے

ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم
خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے

اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر
اتنی دُور آگئے دُنیا سے کنارا کرتے

محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام
آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظاراکرتے

ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوباراکرتے

جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لئے
پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے

کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب
تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے

ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حُسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے

1986ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں