صفحات

اتوار، 30 اکتوبر، 2016

71۔ ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھتی

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ85۔86

71۔ ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھتی


ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھتی
لیکن ہم نے مولا جیسی ذات نہیں دیکھی

اس کی شانِ عجیب کا منظر دیکھنے والاہے
اِک ایسا خورشید کہ جس نے رات نہیں دیکھی

بستر پر موجود رہے اور سیرِ ہفت افلاک
ایسی کسی پر رحمت کی برسات نہیں دیکھی

اس کی آل وہی جو اس کے نقشِ قدم پر جائے
صرف ذات کی ہم نے آلِ سادات نہیں دیکھی

ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جاتی ہیں
کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی

اِک دریائے رحمت ہے جو بہتا جاتا ہے
یہ شانِ برکات کسی کے سات نہیں دیکھی

شاہوں کی تاریخ بھی ہم نے دیکھی ہے لیکن
اس کے در کے گداؤں والی بات نہیں دیکھی

اس کے نام پہ ماریں کھانا اب اعزاز ہمارا
اور کسی کی یہ عزت اوقات نہیں دیکھی

صدیوں کی ا س دھوپ چھاؤں میں کوئی ہمیں بتلائے
پوری ہوتی کون سی اس کی بات نہیں دیکھی

اہلِ زمیں نے کونسا ہم پر ظلم نہیں ڈھایا
کون سی نصرت ہم نے اس کے ہات نہیں دیکھی

1983ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں