یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ99۔100
77۔ ملے ہو تم تو بچھڑ کر اداس مت کرنا
ملے ہو تم تو بچھڑ کر اداس مت کرنا
کسی جدائی کی ساعت کا پاس مت کرنا
محبتیں تو خود اپنی اساس ہوتی ہیں
کسی کی بات کو اپنی اساس مت کرنا
کہ برگ برگ بکھرتا ہےپھول ہوتے ہی
برہنگی کو تم اپنا لباس مت کرنا
بلند ہو کہ ہی ملنا جہاں تلک ملنا
اس آسماں کو زمیں پر قیاس مت کرنا
جو پیڑ ہو تو زمیں سے ہی کھینچنا پانی
کہ ابر آئے گا کوئی یہ آس مت کرنا
یہ کون لوگ ہیں کیسے یہ سربراہ ہوئے
خدا کو چھوڑ کر ان کے سپاس مت کرنا
1978ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں