یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ139۔140
98۔ سمجھنے والے سمجھ لیں گے استعارۂ ذات
سمجھنے والے سمجھ لیں گے استعارۂ ذات
کھلا ہے قِبلا نما پرچم ستارۂ ذات
چھلک کے جائے تو جائے کہاں وجود مرا
ہر ایک سمت ہے پھیلا ہوا کنارۂ ذات
بس ایک عشق تجلّی دکھائے جاتا ہے
نکل رہا ہے مسلسل مرا شمارۂ ذات
وہ کم نظر اسے آشوبِ ذات کہتے ہیں
کہ ایک ذات تلک ہے مرا گزارۂ ذات
بنانے والے نے اس شان سے بنایا اُسے
جہاں سے دیکھو نظر آئے ہے منارۂ ذات
ہے ایک شمع سے روشن یہ آئینہ خانہ
تو کیاہے آئینہ خانہ بجز نظارۂ ذات
اُتر رہا ہے مرے قلب پر وہ عالمِ حرف
کہ جیسے وحیٔ خفی ہو مرا شرارۂ ذات
1978ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں