یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ107۔108
81۔ یاد
یاد
کبھی کبھی کوئی یاد
کوئی بہت پرانی یاد
دل کے دروازے پر
ایسے دستک دیتی ہے
شام کو جیسے تارا نکلے
صبح کو جیسے پھول
جیسے دھیرے دھیرے زمیں پر
روشنیوں کا نزول
جیسے روح کی پیاس بجھانے
اُترے کوئی رسول
جیسے روتے روتے اچانک
ہنس دے کوئی ملول
کبھی کبھی کوئی یاد کوئی بہت پرانی
یاد
دل کے دروازے پر ایسے دستک دیتی ہے
1984ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں