صفحات

ہفتہ، 8 اکتوبر، 2016

134۔ گیت

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ65۔66

134۔ گیت


گیت

نرم کونپل پہ شبنم کے موتی تال پر صبح کی گنگنائیں
ہونٹ پر جب کرن ہونٹ رکھ دے مسکرائیں تو واپس نہ آئیں
نرم کونپل پہ شبنم کے موتی
سچّے سر کی سچائی میں جھول رہے ہیں بدن
لہروں لہروں گاتی جائے جیسے مست پون
دیکھو ساون گاتا آیا
اپنے آنگن گاتا آیا
نرم کونپل پہ شبنم کے موتی
آؤ مل کہ موج میں اپنی کھیلیں ہواؤں کے سنگ
ہولے ہولے بادل چھو لیں جیسے فضاؤں کے رنگ
دیکھو ساون گاتا آیا
اپنے آنگن گاتا آیا
نرم کونپل پہ شبنم کے موتی تال پر صبح کی گنگنائیں
ہونٹ پر جب کرن ہونٹ  رکھ دے مسکرائیں تو واپس  نہ آئیں

1972ء

عبید اللہ علیم ؔ


1 تبصرہ:

  1. لاجواب شاعری! بچپن کی ایک حسین یاد۔ جانے کب سے اس خوبصورت گیت کی تلاش تھی، جو آج بالآخر مل ہی گیا۔ میں پانجویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ کلاس کی ایک دوست شبانہ کی بڑی بہنیں ثمینہ اور ریشماں جو غالبا نویں یا دسویں جماعت کی طالبات تھیں، فئیرویل پارٹی کے لئے تیاری کر رہی تھیں۔ انہیں تب یہ گیت گاتے سنا۔ شاید ریڈیو پاکستان پر آیا ہوگا یا پی ٹی وی پر۔ اس دن سے حافظے میں محفوظ ہے۔ کوشش کے باوجود یہ نغمہ کہیں سے ابھی تک مل نہیں پایا۔ مہربانی انٹرنیٹ اور اس خوبصورت پیچ کے ایڈمن کی کہ اس کی شاعری تو کم از کم پڑھنے کو مل گئی اور شاعر کا نام بھی معلعم ہوگیا۔ اللہ تعالی عبیداللہ علیم صاحب کے درجات بلند فرمائے اور انہیں اس جہاں میں ایسے ہی خوبصورت مناظر کے درمیان ابدی حیات نصیب ہو (آمین)

    جواب دیںحذف کریں