صفحات

اتوار، 2 اکتوبر، 2016

152۔ نمو

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ99۔100

152۔ نمو


نمو

میں وہ شجر تھا
کہ میرے سائے میں بیٹھنے اور شاخوں پہ جھولنے کی ہزار جسموں کو آرزو تھی
زمیں کی آنکھیں دراز عمرئ کی دعاؤں میں رو رہی تھیں
اور سورج کے ہاتھ تھکتے نہیں تھے مجھ کو سنوارنے میں
کہ میں اک آواز کا سفر تھا
عجب شجر تھا
کہ اُس مسافر کا منتظر تھا
جو میرے سائے میں آ کے بیٹھے اور پھر نہ اٹھے
جو میری شاخوں میں آ کے جُھولے تو سارا موسم یہیں گزارے
مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر کا
جو چھوڑ آیا تھا کتنے سارے
جو توڑ آیا تھا کتنی شاخیں
مگر لگا یوں کہ جیسے اب وہ شکستہ تر ہے
وہ میرے خوابوں کا ہمسفر ہے
سو میں نے سائے بچھا دیے تھے
تمام جھولے ہلا دیے تھے
مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا
عجب مسافر تھا رہ گزر کا
کہ لمحے بھر میں گزر چکا تھا
میں بے نمو اور بے ثمر تھا
مگر میں آواز کا سفر تھا
سو میری آواز کا اجر1 تھا
 عجب شجر تھا
عجب شجر ہوں
کہ آنے والے سے کہہ رہا ہوں
اے میرے دل میں اترنے والے
اے مجھ کو شاداب کرنے والے
تجھے مری روشنی مبارک
تجھے مری زندگی مبارک

1۔میرا عجز سمجھ لیجئے

1969ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں