یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ133۔134
95۔ چاند جب دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے
چاند جب دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے
اور پھیلا دیئے کچھ اپنے کنارے ہم نے
اِک عجب شور مچائی ہوئی تنہائی کے ساتھ
خود میں دُہرائے سمندر کے اشارے ہم
نے
اتنے شفّاف کے تھے روح و بدن آئینہ
اصل کے اصل میں دیکھے تھے نظّارے ہم
نے
رات کیا ٹوٹ کے آئی تھی کہ اُس دامن
سے
جھولیوں بھر لئے آنکھوں میں ستارے ہم
نے
لَوٹ آنے سے ڈریں اور نہ لَوٹیں تو
دُکھیں
وہ زمانے جو ترے ساتھ گزارے ہم نے
کُھلتا جاتا ہے کہ یہ جلوہ گری کس کی
ہے
آئینے سامنے رکھیں ہیں ہمارے ہم نے
1980ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں