یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ95۔98
76۔ اپنا احوال سنا کر لے جائے
اپنا احوال سنا کر لے جائے
جب مجھے چاہے منا کر لے جائے
میں نہ جاؤں جو وہاں تو مجھ کو
میری تنہائی اٹھا کر لے جائے
وہ مجھے بھول گیا ہے شاید
یاد آجاؤں تو آکر لے جائے
ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں
خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے
خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو
جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے
در خزانے کا کہیں بند نہیں
یہ خزانہ کوئی آکر لے جائے
دھوپ میں بیٹھوں تو ساتھی میرا
اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے
تجھ کو بھی کوچۂ عشّاقاں میں
اپنے مولا سے دعا کر ،لے جائے
کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا
جس کو تاریخ بچا کر لے جائے
اِک دیا ایسا بھی دیکھا میں نے
ظلمتِ شب کو ہٹا کر لے جائے
کون محبوب ہوا ہے ایسا
اپنے عاشق کو بلا کر لے جائے
پھر سے آجائے کوئی چپکے سے
کہیں باتوں میں لگا کر لے جائے
اس کے ہمراہ چلا جاتا ہوں
جو مرے دل کو دکھا کر لے جائے
کوئی عیسیٰ مرے معبود کہ جو
تیرے مردوں کو جِلا کر لے جائے
ایسی دیوانگی و حیرانی
آئینہ کوئی دکھا کر لے جائے
سامنے سب کے پڑی ہے دنیا
ذات میں جو بھی سما کر لے جائے
ایسے ملتا نہیں مٹی کو دوام
بس خدا جس کو بنا کر لے جائے
ہو سخن ور کوئی ایسا پیدا
جو سخن میرا چرا کر لے جائے
1978ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں