یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ144
88۔ ایک کہانی ختم ہوئی انجام سے پہلےہی
ایک کہانی ختم ہوئی انجام سے
پہلےہی
یعنی ایک ستارہ ٹوٹا شام سے
پہلے ہی
چلی ہوا کے دوش پہ لیکن دُکھوں
کی ماری لہر
ساحل سے پھر لوٹ گئی آرام سے
پہلے ہی
وقت کے آذر ہاتھ اٹھا اصنام
تراشی سے
دبی ہوئی ہے یہ دنیا اوہام
سے پہلے ہی
مولا ہمّت دیتا ہے تو چلتے
ہیں ورنہ
کھڑی ہوئی ہے اِک گردش ہر گام
سے پہلے ہی
یا میخانے پی جاتے تھے شاعر
رند ترے
یا نشّے سے چور ہوئے ہیں جام
سے پہلے ہی
1981ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں