صفحات

پیر، 31 اکتوبر، 2016

67۔ جب اپنا سر پاتال ہوا

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ77۔79

67۔ جب اپنا سر پاتال ہوا


جب اپنا سُر پاتال ہوا
تب وحیِ نفس انزال ہوا

اک وصل کے خواب میں کھو جانا
یہ وصل ہوا کہ وصال ہوا

تھا دکھ اپنی پیدائش کا
جو لذت میں انزال ہوا

کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں
کن قدموں سے پامال ہوا

بِن عشق اسے کیونکر جانو
جو عشق سراپا حال ہوا

اس وقت کا کوئی انت نہیں
یہ وقت تو ماہ و سال ہوا

وہی ایک خلش نہ ملنے کی
ہمیں ملتے دسواں سال ہوا

ہر اچھی بات پہ یاد آیا
اک شخص عجیب مثال ہوا

ہر آن تجلی ایک نئی
لکھ جانا میرا کمال ہوا

کس بات کو کیا کہتا تھا مَیں
تم کیا سمجھے یہ ملال ہوا

تم کیسی باتیں کرتے ہو
اےیار صغیر ملال ہوا

کل رات سمندر لہروں پر
دیوانوں کا دھمّال ہوا

اک رانجھا شہر کراچی میں
اک رانجھا جھنگ سیال ہوا

1978ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں