صفحات

منگل، 4 اکتوبر، 2016

147۔ عشو ۂ وغمزۂ ورم بھول گئے

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ89۔90

147۔ عشو ۂ وغمزۂ ورم بھول گئے


عشو ۂ وغمزۂ ورم بھُول گئے
تیری ہر بات کو ہم بھول گئے

لوگ دیتے ہیں جسے پیار کا نام
ایک دھوکا تھا کہ ہم بھول گئے

جن کو دعوی تھا مسیحائی کا
اپنا ہی دیدۂ نم بھول گئے

یوں ہی الزام ہے دیوانوں پر
کب ہوئے تھے جو کرم بھول گئے

جانے کیوں لوگ ہنسا کرتے ہیں
جانے ہم کون سا غم بھول گئے

اب تو جینے دو زمانے والو
اب تو اس زلف کے خم بھول گئے

زندگی نے جو سکھایا تھا علیم
زندگی کے لیے ہم بھول گئے

1961ء

عبید اللہ علیم ؔ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں