یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ123۔124
89۔ گیت
گیت
ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل
گئی
سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی
چہرے گلاب ہوئے
اپنا ہی تو ہے جیون اپنا
تاروں سے سجا آنگن اپنا
خوشیوں سے بھرا دامن اپنا
اس رُت کو آؤ سلام کریں جس رُت میں
ہم مہتاب ہوئے
ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل
گئی
سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی
چہرے گلاب ہوئے
پتّوں پہ ہنسے شبنم جیسے
خوشبو کا کھلے پرچم جیسے
کچھ بول اٹھے موسم جیسے
پل بھر کو سہی پر دیدہ و دل سیراب ہوئے،
شاداب ہوئے
ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل
گئی
سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی
چہرے گلاب ہوئے
جو کھلے نہیں وہ کِھل جائیں
سب بچھڑے ساتھی مل جائیں
یارب یہ زخم بھی سل جائیں
ہم کہہ تو سکیں اس موسم میں سب پورے
اپنے خواب ہوئے
سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی
چہرے گلا ہوئے
ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل
گئی
1972ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں