یہ
زندگی ہے ہماری۔ ویراں سرائے کا دیا صفحہ101۔102
78۔ اگلی محبتوں کے فسانے کہاں تلک
اگلی محبتوں کے فسانے کہاں تلک
گزرے ہوئے گزاروں زمانے کہاں تلک
آئے ہو تم تو اب نئے خواب و خیال دو
لکھوں وہی میں لفط پرانے کہاں تلک
میرے لہو میں جن کا کوئی ذائقہ نہیں
دیکھوں وہی میں خواب سہانے کہاں تلک
ہر روز ایک عشق نیا چاہتا ہے دل
بولوں میں جھوٹ سچ کے بہانے کہاں تلک
ایسی زمیں جس کا کوئی آسماں نہیں
ایسی زمیں کے گاؤں ترانے کہاں تلک
اک نام ہے کہ جس کے بنے ہیں ہزار نام
روشن رہے وہ نام نہ جانے کہاں تلک
آؤ کہ ان میں پھر کوئی چہرہ اتار لیں
ترسیں گے اب یہ آئینہ خانے کہاں تلک
دُکھتا ہوں میں کہ ہے ہوسِ آدمی بہت
اُگلے گی یہ زمیں خزانے کہاں تلک
کہتا ہے مجھ سے لکھا ہوا میرا حرف حرف
سچّا ہوں میں تو کوئی نہ مانے کہا ں
تلک
1975ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں