یہ
زندگی ہے ہماری۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ91۔92
148۔ وقت
وقت
کوہکن وقت تیشہ چلاتا ہواصبح سے
دوپہر تک تو آہی گیا
ہر قدم ڈھونڈتا اک نیا راستہ راہ
شمس وقمر تک تو آہی گیا
صبح آغاز سےمہر رفتار ہےجو بھی ہے
فرق وہ عمر کا فرق ہے
تیرگی روشنی کی گراں جنگ سے اب
قویٰ اس کے سب مضمحل ہو چکے
ڈھل چکا نشۂ طاقت وعزم بھی آب ِ
تیشہ جو تھی سنگ نے چاٹ لی
ایک مزدور نے چاہ میں مُزد کی جس
طرح کٹ سکی زندگی کاٹ دی
اور آوارہ طائر کی مانند اب
جھانکتا ہے پیاسی نظر سے کوئی
س کو چشمہ ملے یا کسی پیڑ کی چھاؤں
میں بیٹھ کر اونگھ لے دو گھڑی
دور تک ہیں سرابوں ہی کے سلسلے پیڑ
عنقا ہیں اور گرد کی چھاؤں ہے
کشتہ ء خواب کو اجرت ومُزدمیں آس
کا ایک اُجڑا ہو اگاؤں ہے
مہرباں کوئی قاصد سنا کے اسے مژدۂ
مرگِ شیریں گزر جائے گا
اور یہ سنگِ منزل سے پھوڑ کر یا
پھر اپنے ہی تیشے سے مرجائے گا
1960ء
عبید اللہ علیم ؔ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں