صفحات

پیر، 29 فروری، 2016

132۔ ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے

کلام محمود صفحہ196

132۔ ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے


ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے
مری نگاہ تو بس جا کے تجھ پہ پڑتی ہے

بدل کے بھیس معالج کا خودوہ آتے ہیں
زمانہ کی جو طبیعت کبھی بگڑتی ہے

زبان میری تو رہتی ہے ان کے آگے گنگ
نگاہ میری نگاہوں سے ان کی لڑتی ہے

الجھ الجھ کے میں گرتا ہوں دامن تر سے
مری امیدوں کی بستی یونہی اجڑتی ہے

منٹ منٹ پہ مرا امتحان لیتے ہیں
قدم قدم پہ مصیبت یہ آن پڑتی ہے

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 6جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان

133۔ ذکر خدا پہ زور دے ظلمتِ دل مٹائے جا

کلام محمود صفحہ197

133۔ ذکر خدا پہ زور دے ظلمتِ دل مٹائے جا


ذکر خدا پہ زور دے ظلمتِ دل مٹائے جا
گوہر ِشب چراغ بن دنیا میں جگمگائے جا

دوستوں دشمنوں میں فرق دابِ سلوک یہ نہیں
آپ بھی جامِ مے اڑا غیر کو بھی پلائے جا

خالی امید ہے فضول  سعئِ عمل بھی چاہیے
ہاتھ بھی تو ہلائے جا ،آس کو بھی بڑھائے جا

جو لگے تیرے ہاتھ سے زخم نہیں علاج ہے
میرا نہ کچھ خیال کر زخم یونہی لگائے جا

مانے نہ مانے اس سے کیا بات تو ہوگی دو گھڑی
قصۂ دل طویل کر بات کو تو بڑھائے جا

کشورِدل کو چھوڑ کر جائیں گے وہ بھلا کہاں؟
آئیں گے وہ یہاں ضرور تو انہیں بس بلائے جا

منزلِ عشق ہے کٹھن راہ میں راہزن بھی ہیں
پیچھے نہ مڑ کے دیکھ تُوآگے قدم بڑھائے جا

عشق کی سوزشیں بڑھا جنگ کے شعلوں کو دبا
پانی بھی سب طرف چھڑک آگ بھی تو لگائے جا

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 9جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان

134۔ مسحور کردیامجھے دیوانہ کر دیا

کلام محمود صفحہ198

134۔ مسحور کردیامجھے دیوانہ کر دیا


مسحور کردیامجھے دیوانہ کر دیا
تیری نگاہ ِلطف نے کیا کیا نہ کردیا

جادوبھرا ہوا ہے وہ آنکھوں میں آپ کی
اچھے بھلے کو دیکھ کے دیوانہ کردیا

سوزِدروں نے جوش  جوماراتودیکھنا
خودشمع بن گئے مجھے پروانہ کردیا

آنکھوں میں گھس کے وہ مرے دل میں سماگئے
مسجد کو اک نگاہ میں بت خانہ کردیا

خم کی طرف نگاہ کی ساقی نے جب کبھی
میں نے بھی اس کے سامنے پیمانہ کردیا

ہیں ناخدائے قوم بنے صاحبانِ عقل
ہے اس خیال نے مجھے دیوانہ کردیا

ہر جلوۂ جدید نے تختہ الٹ دیا
خود مجھ کو اپنے آپ سے بیگانہ کر دیا

میری شکایتوں کو ہنسی میں اڑا دیا
لایا تھا جو میں سنگ اسے دانہ کردیا

کہتے ہیں میرے ساتھ رقیبوں کوبھی تو چاہ
لواور مجھ غریب پہ جرمانہ کردیا

ناصح وہ اعتراض ترےکیا ہوئے بتا
یکتا کے پیار نے مجھے یکتا نہ کردیا؟

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 13جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان

135۔ ہوچکا ہے ختم اب چکر تری تقدیر کا

کلام محمود صفحہ199

135۔ ہوچکا ہے ختم اب چکر تری تقدیر کا


ہوچکا ہے ختم اب چکر تری تقدیر کا
سونے والے اٹھ کہ وقت آیا ہے اب تدبیر کا

شکوۂ جور ِفلک کب تک رہے گا برزباں
دیکھ تو اب دوسرا رخ بھی ذرا تصویر کا

کاغذی جامہ کو پھینک اور آہنی زرہیں پہن
وقت اب جاتا رہا ہے شوخئ تحر یر کا

نیزۂ دشمن ترے سینہ میں پیوستہ نہ ہو
اس کے دل کے پار ہو سوفار تیرے تیر کا

اپنی خوش اخلاقیوں سے موہ لے دشمن کا دل
دلبری کر،چھوڑ سودا نالۂ دلگیر کا

مدتوں کھیلا کیا ہے لعل وگہر سے عدو
اب دکھا دے توذر اجوہر اسے شمشیر کا

پیٹ کے دھندوں کو چھوڑ اور قوم کے فکروں میں پڑ
ہاتھ میں شمشیر لے عاشق نہ بن کف گیر کا

ملک کے چھوٹے بڑے کووعظ کر پھر وعظ کر
وعظ کرتا جا ،نہ کچھ بھی فکر کر تاثیر کا

کل کے کاموں کوبھی جو ممکن ہو اگر تو آج کر
اے مری جاں وقت یہ ہر گز نہیں تاخیر کا

ہوچکی مشقِ ستم اپنوں کے سینوں پر بہت
اب ہو دشمن کی طرف رخ خنجروشمشیر کا

اے مرے فرہاد رکھ کاٹ کر کوہ وجبل
تیرا فرضِ اولیں لانا ہے جوئے شیر کا

ہورہا ہے کیا جہاں میں کھول کر آنکھیں تو دیکھ
وقت آپہنچا ہے تیرے خواب کی تعبیر کا

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 14جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان

136۔ چھوڑ کر چل دئے میدان کو دوماتوں سے

کلام محمود صفحہ200

136۔  چھوڑ کر چل دئے میدان کو دوماتوں سے


چھوڑ کر چل دئے میدان کو دوماتوں سے
مردبھی چھوڑ تے ہیں دل کبھی ان باتوں سے

میں دل و جاں بخوشی ان کی نذر کر دیتا
ماننے والے اگر ہوتے وہ سوغا توں سے

دن ہی چڑھتا نہیں قسمت کا مری اے افسوس
منتظر ہوں تری آمد کا کئی راتوں سے

رنگ آجاتا ہے الفت کا نگاہوں میں تری
ورنہ کیا کام ترے رندوں کا برسا توں سے

میرا مقدور کہاں شکوہ کروں ان کے حضور
مجھ کوفرصت ہی کہاں ان کی مناجا توں سے

کامیابی کی تمنا ہے تو کر کوہ کنی
یہ پری شیشے میں اتری ہے کہیں با توں سے

بار مل جاتا ہے مجلس میں کسی کی دوپہر
دن ہوئے جاتے ہیں روشن مرے اب راتوں سے

ناز سے غمزہ سے عشوہ سےفسوں سازی سے
لے گئے دل کو اڑاکرمرے کن گھا توں سے

کبھی گریہ کبھی آہ وفغاں ہے اے دل
تنگ آیا ہوں بہت میں تری باتوں سے

تومری جاں کی غذاہےمرے دل کی راحت
پیٹ بھرتا ہی نہیں تیری ملاقاتوں سے

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 25جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان

اتوار، 28 فروری، 2016

137۔ آنکھوں میں وہ ہماری رہے ابتدا یہ ہے

کلام محمود صفحہ201

137۔ آنکھوں میں وہ ہماری رہے ابتدا یہ ہے


آنکھوں میں وہ ہماری رہے ابتدا یہ ہے
ہم اس کے دل میں بسنے لگیں انتہا یہ ہے

روزہ نماز میں کبھی کٹتی تھی زندگی
اب تم خدا کو بھول گئے،انتہا یہ ہے

لاکھوں خطائیں کرکے جو جھکتا ہوں اُس طرف
پھیلا کے ہاتھ ملتے ہیں مجھ سے وفا یہ ہے

راتوں کو آکے دیتا ہے مجھ کو تسلیاں
مردہ خدا کو کیا کروں میرا خدا یہ ہے

کیا حرج ہے جوہم کوپہنچ جائے کوئی شر
پہنچے کسی کو ہم سے اگرشر برا یہ ہے

اس کی وفا ومہر میں کوئی کمی نہیں
تم اس کو چھوڑ بیٹھے ہو ظلم وجفا یہ ہے

مارے جلائے کچھ بھی کرےمجھ کو اس سے کیا
مجلس میں اس کے پاس رہوں مدعا یہ ہے

بوئے چمن اڑائے پھرےجو،وہ کیا صبا
لائی ہے بوئے دوست اڑا کر صبا یہ ہے

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 28جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان

138۔ عاشق تو وہ ہے جوکہ کہے اور سنے تری

کلام محمود صفحہ202

138۔ عاشق تو وہ ہے جوکہ کہے اور سنے تری


عاشق تو وہ ہے جوکہ کہے اور سنے تری
دنیا سے آنکھ پھیر کے مرضی کرے تری

جو کام تجھ سے لینا تھا وہ کام لے چکے
پرواہ رہ گئی ہے یہاں اب کسے تری

امیدِکامیابی وشغلِ سرودورقص
یہ بیل چڑھ سکے گی نہ ہرگزمنڈھے تری

ہو روحِ عشق تیری مرے دل میں جاگزیں
تصویر میری آنکھ میں آکر بسے تری

مٹ جائے میرا نام تو اس میں حرج نہیں
قائم جہاں میں عزت و شوکت رہے تری

میداں میں شیرِنرکی طرح لڑ کے جان دے
گردن کبھی نہ غیر کے آگے جھکے تری

دل مانگ ،جان مانگ کسے عذر ہے یہاں
منظور ہے ہمیشہ سے خاطر مجھے تری

نکلے گی وصل کی کوئی صورت کبھی ضرور
چاہت تجھے مری ہے تو چاہت مجھے تری

یکتا ہےتُو،تو میں بھی ہوں اک منفرد وجود
میرے سوا ہے آج محبت کسے تری

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 31جولائی  1948ء۔ لاہور پاکستان

139۔ وہ گلِ رعنا کبھی دل میں جو مہماں ہوگیا

کلام محمود صفحہ203

139۔ وہ گلِ رعنا کبھی دل میں جو مہماں ہوگیا


وہ گلِ رعنا کبھی دل میں جو مہماں ہوگیا
گوشہ گوشہ خانۂ دل کا گلستاں ہو گیا

محسنِ بد بیں کی صحبت حق کی خاطر چھوڑ دی
کافرِنعمت بنا لیکن مسلماں ہو گیا

دل کو ہے وہ قوت وطاقت عطا کی ضبط نے
نالہ جو دل سے اٹھا میرے وہ طوفاں ہوگیا

کم نہیں کچھ کیمیا سے سوزِالفت کا اثر
اشک ِ خوں جو بھی بہا لعلِ بدخشاں ہوگیا

آپ ہی وہ آگئے بیتاب ہوکر میرے پاس
دردجب دل کا بڑھا تو خود ہی درماں ہوگیا

سامنے آنے سے میرے جس کو ہوتا تھا گریز
دل میں میرے آچھپا غیروں سے پنہا ں ہوگیا

میں دکھانا چاہتا تھا ان کو حالِ دل ،مگر
وہ ہوئے ظاہر تو دل کادردپنہاں ہوگیا

پہلے تو دل نے دکھائی خودسری بے انتہا
رفتہ رفتہ پھر یہ سرکش بھی مسلماں ہوگیا

عشق کی سوزش نےآخر کر دیا دونوں کو ایک
وہ بھی حیراں رہ گیا اور میں بھی حیراں ہوگیا

اس دلِ نازک کے صدقے جو مری لغزش کے وقت
دیکھ کر میری پریشانی پریشاں ہوگیا

اک مکمل گلستاں ہے وہ مرا غنچہ دہن
جب ہوا وہ خندہ زن میں گل بداماں ہو گیا

آگیا غیرت میں فورًا ہی مرا عیسٰی نفس
مرتے ہی پھر زندگی کا میری ساماں ہوگیا

میں بڑھا اک گز تو وہ سو گز بڑھے میری طرف
کام مشکل تھا مگر اس طرح آساں ہوگیا

حیف اس پر جس کو ردی جان کر پھینکا گیا
ورنہ ہرہرگل چمن کا نذرِجاناں ہوگیا

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 11اگست  1948ء۔ لاہور پاکستان