کلام
محمود صفحہ217
152۔ نکل
گئے جو ترے دل سے خار کیسے ہیں
نکل گئے جو ترے دل سے خار کیسے ہیں
جو تجھ کو چھوڑ گئے وہ نگار کیسے ہیں
نہ آرزوئے ترقی نہ صدمۂ ذلت
خدا بچائے یہ لیل و نہار کیسے ہیں
کبھی نہ خانۂ خمار کا کھلا ہے در
جو چپکے بیٹھے ہیں وہ بادہ خوار کیسے
ہیں
نہ حسنِ خُلق ہے تجھ میں نہ حسنِ سیرت
ہے
توہی بتا کہ یہ نقش و نگار کیسے ہیں
خدا کی بات کوئی بے سبب نہیں ہوتی
نہیں ہے ساقی تو ابر و بہار کیسے ہیں
نہ غم سے غم نہ خوشی سے مری تجھے ہے
خوشی
خدا کی مار یہ قرب و جوار کیسے ہیں
نہ دل کو چین نہ سر پر ہے سایۂ رحمت
ستم ظریف! یہ باغ و بہار کیسے ہیں
نہ وصل کی کوئی کوشش نہ دید کی تدبیر
خبر نہیں کہ وہ پھر بے قرار کیسے ہیں
وہی ہے چال وہی راہ ہے وہی ہے رَوِش
ستم وہی ہیں تو پھر شرمسار کیسے ہیں
وہ لالہ رُخ ہی یہاں پر نظر نہیں آتا
تو اس جہاں کے یہ لالہ زار کیسے ہیں
وہ حسرتیں ہیں جو پوری نہ ہو سکیں افسوس
بتاؤں کیا مرے دل میں مزار کیسے ہیں
مصیبتوں میں تعاون نہیں تو کچھ بھی
نہیں
جو غم شریک نہیں غمگسار کیسے ہیں
اخبار الفضل جلد5 ۔23مئی 1951ء۔ لاہور پاکستان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں