کلام
محمود صفحہ216
151۔ جو دل پہ زخم لگے ہیں مجھے دکھا تو سہی
جو دل پہ زخم لگے ہیں مجھے دکھا تو
سہی
ہوا ہے حال ترا کیا مجھے سنا تو سہی
ثمارِ عشق ہیں کیسے! کبھی تو چکھ کر
دیکھ
یہ بیج باغ میں اپنے کبھی لگا تو سہی
لگاؤں سینہ سے دل میں بٹھاؤں میں تجھ
کو
نہ دور بھاگ یونہی ۔میرے پاس آ تو سہی
وہ منہ چھپائے ہوئے مجھ سے ہَمکلام
ہوئے
وِصال گو نہ ہوا خیر کچھ ہوا تو سہی
فریب خوردۂ الفت فریب خوردہ ہے
مگر تو سامنے اس کو کبھی بُلا تو سہی
وہ آپ خود چلے آئیں گے تیری مجلس میں
خودی کے نقش ذرا دل سے تُو مٹا تو سہی
بُرا جما کہ بھلا اپنی اپنی قسمت ہے
ہمارے دل پہ ترا نقش کچھ جما تو سہی
زمانہ دشمنِ جاں ہے نہ اس کی جانب پھر
تو اُس کو اپنی مدد کے لیے بُلا تو
سہی
نظر نہ آئے وہ تجھ کو یہ کیسے ممکن
ہے
حجاب آنکھوں کے آگے سے تو ہٹا سہی
نکلتے ہیں کہ نہیں روح میں پرِ پرواز
تو اپنی جان کو اس شمع میں جلا تو سہی
جو دشت و کوہ بھی رقصاں نہ ہوں مجھے
کہیو
تُو اس کی سُر میں ذرا اپنی سُر ملا
تو سہی
اخبار الفضل جلد 5 ۔ 10 مئی 1951ء۔ لاہور پاکستان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں