کلام
محمود صفحہ234
169۔ کیا
آپ ہی کونیزہ چبھونا نہیں آتا؟
کیا
آپ ہی کونیزہ چبھونا نہیں آتا؟
یا
مجھ کو ہی تکلیف میں رونا نہیں آتا
حاصل
ہو سکوں چھولوں اگر دامنِ دلبر
دامن
کا مگر ہاتھ میں کونا نہیں آتا
بھڑجاؤں
تو اٹھتے ہوئے طوفانوں سے لیکن
کشتی
کو سمندر میں ڈبونا نہیں آتا
جوکام
کا تھا وقت وہ روروکے گذارا
اب
رونے کا ہے وقت تو رونا نہیں آتا
کہتے
ہیں کہ مٹ جاتا ہے دھونے سے ہر اک داغ
اے وائے مجھے داغ کا دھونا نہیں آتا
آجاتے
ہو تم یاد تو لگتا ہوں تڑپنے
ورنہ
کے آرام سے سونا نہیں آتا
دامن
بھی ہے غفراں کا سمندر بھی ہے موجود
دامن
کو سمندر میں ڈبونا نہیں آتا
موتی
تو ہیں پر ان کو پرونا نہیں آتا
آنسو
تو ہیں آنکھوں میں پہ رونانہیں آتا
میں
لاکھ جتن کرتا ہوں دل دینے کی خاطر
پر
ان کی نگہ میں یہ کھلونا نہیں آتا
کیا
فائدہ اس در پہ تجھے جانے کا اے دل
دامن
کو جو اشکوں سے بھگونا نہیں آتا
کس
برتے پہ امید رکھوں اس سے جزا کی
کاٹوں
گا میں کیا خاک کہ بونا نہیں آتا
اخبار الفضل جلد 6۔ 3جنوری 1952ء۔ لاہور
۔ پاکستان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں