کلام
محمود صفحہ230
165۔ جونہی
دیکھا انہیں چشمہ محبت کاا بل آیا
جونہی
دیکھا انہیں چشمہ محبت کاا بل آیا
درختِ
عشق میں مایوسیوں کے بعد پھل آیا
خطائیں
کیں جفائیں کیں ہراک ناکردنی کرلی
کیا
سب کچھ مگر پیشانی پر ان کے نہ بل آیا
ملمع
ساز اس کوڈھونڈتے پھرتے ہیں دنیا میں
مگر
وہ عاشق صادق کے پہلو سے نکل آیا
امیدیں
روز ہی ہوتی تھیں پیدا شکل نو لے کر
مگر
قلب حزیں کو صبر آج آیا نہ کل آیا
نہیں
بیچارگی وجبر کادخل ان کی محفل میں
جو
آیا ان کی محفل میں وہ چل کے سر کے بل آیا
11جولائی1951ءدوران سفر سکیسر
اخبار الفضل جلد 5۔28نومبر 1951ء۔ لاہور
۔ پاکستان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں