صفحات

ہفتہ، 13 فروری، 2016

182۔ مر رہا ہے بھوک کی شدت سے بیچارہ غریب

کلام محمود صفحہ248۔251

182۔ مر رہا ہے بھوک کی شدت سے بیچارہ غریب


تصویر کا پہلا رُخ

مر رہا ہے بھوک کی شدت سے بیچارہ غریب
ڈھانکنے کو تن کے گاڑھا تک نہیں اس کو نصیب

کھاتے ہیں زردہ پلاؤ قورما و شیر مال
مخملی دوشالے اوڑھے پھرتے ہیں اس کے رقیب

تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

اصطبل میں گھوڑے ہیں بھینسیں بھی ہیں کچھ شِیردار
سبزے کی کثرت سے گھر بھی بن رہا ہے مرغزار

لب پہ ان کے قہقہے ہیں ان کی آنکھوں میں  بہار
روحِ انسانی ہے پَر خاموش بیٹھی سوگوار

تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

جب وبا آئے تو پہلے اس سے مرتے ہیں غریب
مال داروں کو مگر لگتے ہیں ٹیکے، ہے عجیب

موت جس کے پاس ہے ہے وہ تومحرومِ دوا
اور جو محفوظ ہیں ان کو دوائیں ہیں نصیب

تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

نورِ قرآں کی تجلی ہے زمانہ بھر میں آج
احمدِ ثانی نے رکھ لی احمدِ اول کی لاج

کفر نے بت توڑ ڈالے دَیر کو ویراں کیا
پر مسلمانوں کے گھر میں ہے جہالت ہی کا راج

تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

وِرثۂ نبوی کے ڈر سے مولوی کا احترام
اُلفتِ پدری کی خاطر سیدوں کے ہیں غلام

جو بھی کچھ ہے غیر کا ہے ان کی حالت ہے تو یہ
دولتِ عقبیٰ سے خالی نعمتِ دنیا حرام

تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

یاد ہیں قرآن کے الفاظ تو ان کو تمام
اور پوچھیں تو ہیں کہتے یہ ہے اللہ کا کلام

پر یقیں مفقود ہے ایمان ہے بالکل ہی خام
علم و عرفاں کی غذا ان پر ہے قطعًا ہی حرام

تیرے بندے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

مال سے ہے جیب خالی علم سے خالی ہے سر
یادِ خالق سے ہے غفلت رہتی ہے فکرِ دگر

مالِ خود برباد ویراں مالِ دیگر پر نظر
منزلِ آخر سے غافل پھر رہے ہیں در بدر

تیرے بند ے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

ہے قدم دنیا کا ہر دم آگے آگے جا رہا
تیز تر گردش میں ہیں پہلے سے اب ارض و سما

آج کوئی بھی نظر آتا نہیں ساکن ہمیں
ایک مسلم ہے کہ ہے آرام سے بیٹھا ہوا

تیرے بند ے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

فکرِ انسانی فلک پر اُڑ رہا ہے آج کل
فلسفہ دکھلا رہا ہے خوب اپنا زور و بَل

پر مسلماں راستہ پر محوِ حیرت ہے کھڑا
کہہ رہا ہے اس کو مُلا اک قدم آگے نہ چل

تیرے بند ے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

شمعِ نورِ آسمانی کو دیا جس نے بجھا
باب وحیِ حق کا جس نے بند بالکل کر دیا

جس نے فضلِ ایزدی کی راہیں سب مسدود کیں
ہے اُسی مُلا کو مسلم نے بنایا راہ نما

تیرے بند ے اے خدا دنیا میں کچھ ایسے بھی ہیں

تصویر کا دوسرا رُخ

وہ بھی ہیں کچھ جو کہ تیرے عشق  میں مخمور ہیں
دنیوی آلائشوں سے پاک ہیں اور دور ہیں

دنیا والوں نے انھیں بے گھر کیا بے در کیا
پھر بھی ان کے قلب حُبِّ خلق سے معمور ہیں

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

ڈھانپتے رہتے ہیں ہر دم دوسروں کے عیب کو
ہیں چھپاتے رہتے وہ دنیا جہاں کے عیب کو

ان کا شیوہ نیک ظنی نیک خواہی ہے سدا
آنے دیتے ہی نہیں دل میں کبھی بھی ریب کو

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

روز و شب قرآن میں فکر و تدبر مشغلہ
ان پہ دروازہ کھلا ہے دین کے اسرار کا

تجھ میں ان میں غیریت کوئی نظر آتی نہیں
ہیں اگر وہ مال تیرا تُو بھی ان کا ہے صلہ

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

اک طرف تیری محبت اک طرف دنیا کا درد
دل پھٹا جاتا ہے سینے میں ہے چہرہ زرد زرد

ہیں لگے رہتے دعاؤں میں وہ دن بھی رات بھی
ہیں زمین و آسماں میں پھر رہے وہ رَہ نَوَرد

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

جن کو بیماری لگی ہے وہ ہیں غافل سو رہے
پر یہ ان کی فکر میں ہیں سخت بے کل ہو رہے

ایک بیماری سے گھائل ایک فکروں کا شکار
دیکھئے دنیا میں باقی یہ رہے یا وہ رہے

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

بادۂ عرفاں سے تیری ان کے سر مخمور ہیں
جذبۂ الفت سے تیرے ان کے دل معمور ہیں

ان کے سینوں میں اُٹھا کرتے ہیں طوفاں رات دن
وہ زمانہ بھر  میں دیوانے ترے مشہور ہیں

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

طاقت و قوت کے مالک ان کامنہ کرتے ہیں بند
دین کی گدی کے وارث پھینکتے ہیں ان پہ گند

وہ ہر اک صیاد کے تیروں کا بنتے ہیں ہدف
جس کا بس چلتا ہے پہنچاتا ہے وہ ان کو گزند

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

فکرِ خود سے فکرِ دنیا کے لیے آزاد ہیں
شاد کرتے ہیں زمانہ بھر کو خود ناشاد ہیں

دنیا والوں کی نظر میں پھر بھی ٹحہرے ہیں حقیر
ہیں گنہ لازم مگر سب نیکیاں برباد ہیں

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

بند کر کے آنکھ دنیا کی طرف سے آج وہ
رکھ رہے ہیں تیرے دیں کی سب جہاں میں لاج وہ

تیری خاطر سہہ رہے ہیں ہر طرح کی ذلتیں
پر ادا کرتے نہیں شیطاں کو ہر گز باج وہ

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

ساری دنیا سے ہے بڑھ کر حوصلہ ان کا بلند
پھینکتے ہیں عرش کے کنگوروں پر اپنی کمند

کیوں نہ ہو وہ صاحبِ معراج کے شاگرد ہیں
آسماں پر اُڑ رہا ہے اس لیے ان کا سمند

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

جن کو سمجھی تھی برا دنیا وہی تیرے ہوئے
شیر کی مانند اُٹھے ہیں وہ اب بپھرے ہوئے

نام تیرا کر رہے ہیں ساری دنیا میں بلند
جاں ہتھیلی پر دھرے سر پر کفن باندھے ہوئے

تیرے بند ے اے خدا سچ ہے کہ کچھ ایسے بھی ہیں

اخبار الفضل جلد 8۔ 31 دسمبر1954ء ۔ ربوہ ۔پاکستان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں