کلام
محمود صفحہ264
191۔ آمد
کا تیری پیارے ہواانتظارکب تک
قبل از ہجرت قادیاں میں
آمد
کا تیری پیارے ہواانتظارکب تک
ترسے
گا تیرےمنہ کو یہ دلفگار کب تک
کرتا
رہے گا وعدے اے گلعذار کب تک
چبھتا
رہے گا دل میں حسرت کا خار کب تک
کھولے
گا مجھ پہ کب تک یہ راز خلق و خالق
دیکھوں
گا تیری جانب آئینہ وار کب تک
ہر
چیز س جہاں کی ڈھلتا ہوا ہے سایہ
روزشباب
کب تک لطف بہار کب تک
ان
وادیوں کی رونق کب تک رہے گی قائم
یہ
ابروبادوباراں یہ سبزہ زار کب تک
یہ
خدوخال کب تک یہ چال ڈھال کب تک
اس
حسن عارضی میں آخر نکھار کب تک
بیٹھیں
گے ابن آدم کب کنج عافیت میں
شوروشغب
یہ کب تک یہ خرخشار کب تک
بعد ہجرت سندھ کےسفر میں
تری
تدبیر جب تقدیر سے لڑتی ہے اے ناداں
تو
اک نقصان کے بدلے ترے ہوتے ہیں سو نقصاں
وہ
خود دیتے ہیں جب مجھ کوبھلا انکار ممکن ہے
میں
کیوں فاقے رہوں جب شاہ کے گھر میں ہوا مہماں
بٹھا
کر مائدہ پر لاکھ وہ خاطر کریں میری
گداپھربھی
گداہےاور سلطاں پھر بھی ہے سلطاں
جب
آئے دل میں آؤاورجوچاہو کہو اس سے
یہ
وہ در ہے جس کا کوئی حاجب ہے نہ درباں ہے
اخبار الفضل جلد20/55۔26مارچ 1966ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں