کلام
محمود صفحہ256۔257
186۔ اے
خدا دل کو مرے مزرعِ تقوٰی کر دیں
کچھ دن کی بات ہے کہ بارہ بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو زبان پر یہ اشعار جاری
تھے۔ گویا یہ غزل القائی ہے۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ پہلا شعر تو لفظ بلفظ یاد رہا ہے اور
باقی اشعار میں سے اکثر ایسے ہیں جن کے بعض لفظ تو بھول گئے اور جاگنے پر خود اس کمی
کو پورا کیا گیا اور دو تین شعر ایسے ہیں جو سارے کے سارے جاگنے پر بنائے گئے۔ اب یہ
سب اشعار اشاعت کے لیے الفضل کو بھجوائے جاتے ہیں۔ (مرزامحمود احمد)
اے
خدا دل کو مرے مزرعِ تقوٰی کر دیں
ہوں
اگر بد بھی تو تو بھی مجھے اچھا کر دیں
میری
آنکھیں نہ ہٹیں آپ کے چہرہ سے کبھی
دل
کو وارفتہ کریں محوِ تماشا کر دیں
دانۂ
سبحہ1 پراگندہ ہیں چاروں جانب
ہاتھ
پر میرے انہیں آپ اکٹھا کر دیں
ساری
دنیا کے پیاسوں کو کروں میں سیراب
چشمۂ
شور بھی ہوں گر مجھے میٹھا کر دیں
میں
بھی اس سیدِ بطحاؐ کا غلامِ در ہوں
دم
سے روشن مرے بھی وادئ بطحا کر دیں
ٹیڑھے
رستہ پہ چلے جاتے ہیں تیرے بندے
پھیر
لائیں انھیں اور راہ کو سیدھا کر دیں
منتظر
بیٹھے ہیں دروازہ پہ عاشق اے رب
تھوک
دیں غصہ کو دروازہ کو پھر وَا کر دیں
احمدی
لوگ ہیں دنیا کی نگاہوں میں ذلیل
ان
کی عزت کو بڑھائیں انہیں اونچا کر دیں
میرے
قدموں پہ کھڑے ہو کے تجھے دیکھیں لوگ
ربِ
ابرام2 مجھے اس کا مصلٰے کر دیں
مجھ
سے کھویا ہوا ایمان مسلماں پالیں
ہوں
تو سفلی پہ مجھے آپ ثریا کر دیں
لوگ
بے تاب ہیں بے حد کہ نمونہ دیکھیں
سالکِ
رہ کے لیے مجھ کو نمونہ کر دیں
مقصدِ
خلق بر آئے گا یہی تو ہو گا
اندھی
دنیا کو اگر فضل سے بینا کر دیں
ظلمتیں
آپ کو سجتی نہیں میرے پیارے
پردے
سب چاک کریں چہرہ کو ننگا کر دیں
اپنے
ہاتھوں سے ہوئی ہے مری صحت برباد
میری
بیماری کا اب آپ مداوٰی کر دیں
بارآور
ہو جو ایسا کہ جہاں بھر کھائے
دل میں میرے وہ شجر خیر کا پیدا کر دیں
میں
تہی دست ہوں رکھتا نہیں کچھ راسِ عمل
جو
نہیں پاس مرے آپ مہیا کر دیں
1: مراد مسلمان ہیں
2: ابراہیم علیہ السلام
اخبار الفضل جلد 11۔ 6 فروری 1957ء۔ ربوہ ۔پاکستان
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں