صفحات

ہفتہ، 27 فروری، 2016

141۔ دل دے کہ ہم نے ان کی محبت کو پالیا

کلام محمود صفحہ205

141۔ دل دے کہ ہم نے ان کی محبت کو پالیا


دل دے کہ ہم نے ان کی محبت کو پالیا
بے کار چیز دے کے دُرِبے بہا لیا

میں مانگنے گیا تھا کوئی ان کی یادگار
لیکن وہاں انھوں نے مرا دل اڑا لیا

کہتے ہیں لوگ کھاتے ہیں ہم صبح و شام غم
ہم ان سے کیا کہیں کہ ہمیں غم نے کھا لیا

گر کرگڑھے میں عرش کے پائے کو جا چھوا
کھوئے گئے جہاں سے مگر ان کو پا لیا

نکلا تھا میں کہ بوجھ اٹھاوں گا ان کا میں
لیکن انھوں نے گود میں مجھ کواٹھا لیا

بھاگا تھا ان کو چھوڑ کے یونس ؑ کی طرح میں
لیکن انھوں نے بھاگ کے پیچھے سے آلیا

ہنستے ہی ہنستے روٹھ گئے تھے وہ ایک دن
ہم نے بھی روٹھ روٹھ کے ان کو منا لیا

جاجاکے ان کے در پہ  تھکے پاؤں جب مرے
وہ چال کی کہ ان کو ہی دل میں بسا لیا

یہ دیکھ کر کے دل کو لیے جارہے ہیں وہ
میں  نے بھی ان کے حسن کا نقشہ اڑا لیا

ناراضگی سے آپ کی آئی ہے لب پہ جاں
اب تھوک دیجے غصہ بہت کچھ ستا لیا

کیا دامِ عشق سے کبھی نکلا ہے صید بھی
کیا بات تھی کہ آپ نے عہد ِوفا لیا

نقصاں اگر ہو اتوفقط آپ کا ہوا
دل کوستا کے اے مرے دلدار کیا لیا

میں صاف دل ہوں مجھ سے خطا جب کبھی ہوئی
آبِ خجال سے میں اسی دَم نہا لیا

ہونے دی ان کی بات نہ ظاہر کسی پہ بھی
جوزخم بھی لگا اسے دل میں چھپا لیا

عشق ووفا کا کام نہیں نالہ وفغاں
بھر آیا دل تو چپکے سے آنسو بہا لیا

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 28دسمبر 1948ء۔ لاہور پاکستان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں