صفحات

پیر، 29 فروری، 2016

136۔ چھوڑ کر چل دئے میدان کو دوماتوں سے

کلام محمود صفحہ200

136۔  چھوڑ کر چل دئے میدان کو دوماتوں سے


چھوڑ کر چل دئے میدان کو دوماتوں سے
مردبھی چھوڑ تے ہیں دل کبھی ان باتوں سے

میں دل و جاں بخوشی ان کی نذر کر دیتا
ماننے والے اگر ہوتے وہ سوغا توں سے

دن ہی چڑھتا نہیں قسمت کا مری اے افسوس
منتظر ہوں تری آمد کا کئی راتوں سے

رنگ آجاتا ہے الفت کا نگاہوں میں تری
ورنہ کیا کام ترے رندوں کا برسا توں سے

میرا مقدور کہاں شکوہ کروں ان کے حضور
مجھ کوفرصت ہی کہاں ان کی مناجا توں سے

کامیابی کی تمنا ہے تو کر کوہ کنی
یہ پری شیشے میں اتری ہے کہیں با توں سے

بار مل جاتا ہے مجلس میں کسی کی دوپہر
دن ہوئے جاتے ہیں روشن مرے اب راتوں سے

ناز سے غمزہ سے عشوہ سےفسوں سازی سے
لے گئے دل کو اڑاکرمرے کن گھا توں سے

کبھی گریہ کبھی آہ وفغاں ہے اے دل
تنگ آیا ہوں بہت میں تری باتوں سے

تومری جاں کی غذاہےمرے دل کی راحت
پیٹ بھرتا ہی نہیں تیری ملاقاتوں سے

اخبار الفضل جلد 2 ۔ 25جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں