کلام
محمود صفحہ 279۔286
212۔قطعات
֍
باغِ
کفار سے ہم نت نئے پھل کھاتے ہیں
دل
ہی دل میں وہ جسے دیکھ کے جل جاتے ہیں
یہ
نہ سمجھو کہ وہ بن کھائے پئے جیتے ہیں
وہ
بھی کھاتے ہیں مگر نیزوں کے پھل کھاتے ہیں
بدر 18فروری 1905ء
֍
لیکھو
ؔسے کہا تھا جو ہوا وہ پورا
کیا
تم نے وہ دیکھی نہیں مرزاؑ کی دعا
اب
بھی کرو انکار تو حیرت کیا ہے
مشہور
ہے بے شرم کی ہے دور بلا
بدر 6 مارچ 1907ء
֍
چھ
مارچ کو لیکھو ؔنے اٹھایا لنگر
دنیا
سے کیا کوچ سوئے نار سقر
تھی
موت کے وقت اس کی یہ طرفہ حالت
لب
پہ تھی اگر آہ تو تن میں خنجر
یہ
آریہ کہتے ہیں کہ لیکھو ؔہے شہید
ایسی
تو نہ تھی ہم کو بھی ان سے امید
تھی
موت وہ ذلت کی شہادت کیسی
کیا
جن پہ پڑے قہرِ خدا ہیں وہ شہید
بدر 21مارچ 1907ء
֍
کہتا
ہے زاھد کہ میں فرمانروائی چھوڑدوں
اگر
خدا مجھ کو ملے ساری خدائی چھوڑ دوں
دانۂ
تسبیح اور اشکوں کا مطلب ہے اگر
آب
و دانہ کے لیے سب پارسائی چھوڑ دوں
بدر 18 فروری 1909ء
֍
ہائے
کثرت مرے گناہوں کی
وائے
کوتاہی میری آہوں کی
اس
پہ یہ فضل یہ کرم یہ رحم
کیا
طبیعت ہے بادشاہوں کی
بدر30 جون1910ء
֍
ہائے
اس غفلت میں ہم یاروں سے پیچھے رہ گئے
یہ
بھی کیسا پیار ہے پیاروں سے پیچھے رہ گئے
بڑھ
گئے ہم سے صحابہؓ توڑ کر ہر روک کو
ہم
سبک ہو کر گر انباروں سے پیچھے رہ گئے
بدر20 جولائی 1910ء
֍
عابد
کو عبادت میں مزا آتا ہے
قاری
کو تلاوت میں مزا آتا ہے
میں
بندۂ عشق ہوں مجھے تو صاحب
دلبر
کی محبت میں مزا آتا ہے
الفضل9 اگست 1910ء
֍
مرکزِ
شرک سے آوازۂ توحید اٹھا
دیکھنا
دیکھنا مغرب سے ہے خورشید اٹھا
نور
کے سامنے ظلمت بھلا کیا ٹھہرے گی
جان
لو جلد ہی اب ظلمِ صنادید اٹھا
21ستمبر 1920ء
֍
اٹھی
آواز جب آذاں کی اللہ کے گھر سے
تو
گونج اٹھے گا لندن نعرۂ اللہ اکبر سے
اڑے
گا پرچم توحید پھر سقف معلیٰ پر
ملینگے
دھکے دیو شرک کو گھر گھر سے در در سے
الفضل 11 اکتوبر 1920ء
֍
مرے
جان و دل کے مالک مری جاں نکل رہی ہے
تیری
یاد چٹکیوں میں مرے دل کو مل رہی ہے
نہیں
جز دعائے یونس ؑ کے رہا کوئی بھی چارہ
کہ
غم و الم کی مچھلی مجھے اب نگل رہی ہے
کبھی
وہ گھڑی بھی ہوگی کہ کہوں گا یا الٰہی!
مری
عرض تو نےسن لی وہ مجھے اگل رہی ہے
اخبار الفضل 22 نومبر 1920ء
֍
عبث
ہیں باغ احمد کی تباہی کی یہ تدبیریں
چھپی
بیٹھی ہیں تیری راہ میں مولیٰ کی تقدیریں
بھلا
مومن کو قاتل ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے
نگاہیں
اس کی بجلی ہیں تو آہیں اس کی شمشیریں
تری
تقصیریں خود ہی تجھ کو لے ڈوبیں گی اے ظالم
لپٹ
جائینگی تیرے پاؤں میں وہ بن کے زنجیریں
اخبار الفضل 30دسمبر 1937ء
֍
نظر
آرہی ہے وہ چمک وہ حسنِ ازل کی شمع حجاز میں
کہ
کوئی بھی اب تو مزا نہیں رہا قیس عشقِ مجاز میں
֍
سمندر
سے ہوائیں آرہی ہیں
مرے
دل کو بہت گرما رہی ہیں
عرب
جو ہے مرے دلبر کا مسکن
بوئے
خوش اس کی لے کر آرہی ہیں
بشارت
دینے سب خورد و کلاں کو
اچھلتی
کودتی وہ آرہی ہیں
بتقریب جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم منعقدہ مورخہ 11 دسمبر 1938ء مسجد
اقصیٰ میں بعد نمازِ عصر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی تقریر میں خود یہ اشعار بیان فرمائے۔ناشر
֍
اے
مسیحا کبھی پوچھو گے بھی بیمار کا حال
کون
ہے جس سے کہے جاکے دلِ زار کا حال
آنکھ
کاکام نکل سکتا ہے کب کانوں سے
دل
کے اندھوں ست کہوں کیا ترے دیدار کا حال
اندازاً 1938ءیا 1939ء
اخبار الفضل 31 دسمبر 1968ء
֍
رہے
حسرتوں کا پیارے میری جاں شکار کب تک؟
ترے
دیکھنے کو ترسے دل بے قرار کب تک؟
شب
ہجر ختم ہوگی کہ نہ ہوگی یا الٰہی ؟
مجھے
اتنا تو بتا دے کروں انتظار کب تک؟
کبھی
پوچھو گے بھی آکر کہ بتا تو حال کیا ہے
یوں
ہی خوں بہائے جائے دلِ داغدار کب تک؟
اندازاً 1938ءیا 1939ء
اخبار الفضل 31 دسمبر 1968ء
֍
گل
ہیں پر ان میں پہلی سی اب بو نہیں رہی
صوفی
تو مل ہی جاتے ہیں پر ھو نہیں رہی
مغرب
کا ہے بچھونا تو مغرب کا اوڑھنا
اسلام
کی تو کوئی بھی اب خو نہیں رہی
رسالہ ریویو آف ریلجنز اردو ماہ جولائی 1944ء
֍
اس
زمانہ میں اماموں کی بڑی کثرت ہے
مقتدی
ملتے نہیں ان کی بڑی قلت ہے
اس
پہ یہ اور ہے آفت کہ ہیں باغی پیر
اور
لیڈر کو جو دیکھو تو وہ کم ہمت ہے
ازرسالہ ریویو آف ریلجنز اردو ماہ جولائی 1944ء
֍
یہ
متاع ہوش دینداری کبھی لٹنا بھی ہے
اس
جہاں کی قید و بندش سے کبھی چھٹنا بھی ہے
کر
توکل جس قدر چاہے کہ اک نعمت ہے یہ
یہ
بتاوے باندھ رکھا اونٹ کا گھٹنا بھی ہے
20جولائی 1950ء نوشہرہ
֍
اپنا
لیا عدو نے ہر ایک غیر قوم کو
تقسیم
ہو کے رہ گئے ہو تم شعوب میں
سالک!
تجھے نویدِ خوشی دینے کے لئے
پھرتا
ہوں شرق و غرب و شمال و جنوب میں
فقہی
سے اس سوال کا حل ہو نہیں سکا
ہیں
تجھ میں ہی قلوب کہ تو ہے قلوب میں
20 جولائی 1951ء
֍
قرض
سے دور رہو بڑی آفت ہے
قرض
لیکر جو اکڑتا ہے وہ بے غیرت ہے
اپنے
محسن پہ ستم اس سے بڑا کیا ہوگا
قرض
لیکر جو نہ دے سخت ہی بد فطرت ہے
اخبار المصلح جلد7۔23جنوری1954۔کراچی۔پاکستان
֍
فاقوں
مر جائے پہ جائے نہ دیانت تیری
دور
و نزدیک ہو مشہور امانت تیری
جان
بھی دینی پڑے گر تو نہ ہو اس سے دریغ
کسی
حالت میں نہ جھوٹی ہو ضمانت تیری
֍
غضب
خدا کا کہ مال حرام کھاتا ہے
نہیں
ہے حرص کی حد صبح و شام کھاتا ہے
نماز
چھوٹے تو چھٹ جائے کچھ نہیں پروا
مگر
حرام کی روٹی مدام کھاتا ہے
֍
حرام
مال پہ تو جان و دل سے مرتا ہے
وہ
جس طرح سے بھی ہاتھ آئے کر گذرتا ہے
یہ
کیسا پیار ہے اھل و عیال سے تیرا
شکمِ
غریبوں کا انگاروں سے جو بھرتا ہے
֍
وقف
ہے جاں بہر مال و سیم و زر
مال
دینے والے سے ہے بے خبر
ایسے
اندھے کا کریں ہم کیا علاج
مغز
سے غافل ہے چھلکے پر نظر
֍
وقف
کرنا جاں کا ہے کسبِ کمال
جو
ہو صادق وقف میں ہے بیمثال
چمکیں
گے واقف کبھی مانند بدر
آج
دنیاکی نظر میں ہیں ھلال
֍
دھیرے
دھیرے ہوتا ہے کسبِ کمال
بوبکرؓ
کو بننا پڑتا ہے بلالؓ
شمس
پہلے دن سے کہلاتا ہے شمس
بدر
ہوتا ہے مگر پہلے ھلال
֍
آکہ
پھر ظاہر کریں الفت کے راز
یار
میں ہوجائیں گم ،عمرت دراز
میرے
پیچھے پیچھے چلتا آکہ میں
بندۂ
محمودؔ ہوں اور تو ایازؔ
֍
تیری
الفت کا جو شکار ہوا
مر
کے پھر زندہ لاکھ بار ہوا
سر
کو سینہ پہ رکھ لیا میرے
غم
سے جب بھی میں اشکبار ہوا
31 جنوری 1957ء
֍
تیری
خوشی گیاہ میں میری خوشی نگاہ میں
میرا
جہان اور ہے تیرا جہان اور ہے
ہیں
اسی بحر کے گہر ہے اسی حبیب کا یہ نور
ظالمو!
بات ہے وہی لیک زبان اور ہے
رسالہ جامعہ النصرت میگزین جلد 4نمبر 1 بابت ماہ جون 1966ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں