درعدن
ایڈیشن 2008صفحہi-iv
1۔ تعارف
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جن
کا منظوم کلام الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ شائع کرنے کا فخر حاصل کر رہی ہے اللہ تعالیٰ
کے زندہ نشانوں میں سے ایک نشان ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب حقیقۃ
الوحی میں فرماتے ہیں:
''سینتیسواں(٣٧)نشان یہ ہے کہ
بعد اس کے خدا تعالیٰ نے حمل کے ایام میں لڑکی کی بشارت دی اور اس کی نسبت فرمایا کہ''
تُنْشَأُ فِی الْحِلْیَۃِ'' یعنی زیور میں نشوونما پائے گی ۔یعنی
نہ خورد سالی میں فوت ہو گی اور نہ تنگی دیکھے گی ۔ چنانچہ بعد اس کے لڑکی پیدا ہوئی
جس کا نام مبارکہ بیگم رکھا گیا۔''
اسی طرح آپ سے متعلق اللہ تعالیٰ نے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ وحی کی :
''نواب مبارکہ بیگم''۔ ( الحکم جلد 5نمبر 44 صفحہ3)
اس طرح حضرت اقدس ان کے حق میں فرماتے
ہیں :
ہوا اک خواب میں مجھ پر یہ اظہر
کہ اس کو بھی ملے گا بخت برتر
لقب عزت کا پاوے وہ مقرر
یہی روز ازل سے ہے مقدر
خدا نے چار لڑکے اور یہ دختر
عطا کی پس یہ احساں ہے سراسر
الہام ''نواب مبارکہ بیگم '' میں یہ
اس پہلو کی طرف بھی اشارہ تھا کہ آپ نوابی خاندان میں بیاہی جائیں گی ۔چنانچہ 17فروری1908ء
کو آپ غیر متوقع طور پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ رئیس مالیر کوٹلہ
سے بیاہی گئیں٭ جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں ''حجۃ
اللہ'' کے لقب سے نوازا تھااور جن کی پاکبازی اور تقویٰ شعاری کی تعریف خدا کے مقدس
مسیح نے ان الفاظ میں کی تھی۔
''مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی
پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت
اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پرہیز گار ہو''
اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا
یہ رشک اللہ تعالیٰ کی جناب میں قبول ہوا اور اللہ تعالیٰ نے نواب صاحب موصوف کو آپؑ
کا نسبتی بیٹا اور آپ کو ان کا نسبتی باپ بنا دیا۔
اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ
السلام کو ایک خواب میں دکھایا گیا کہ :
''مبارکہ پنجابی زبان میں بول
رہی ہے ۔مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا کہ میں ایسی آئی جس نے ایہہ مصیبت پائی''
یعنی آپ کا وجود نہایت خیر و برکت کا
موجب ہو گا۔
آپ کے کلام کو پڑھنے سے صاف طور پر
معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مقصود شعر گوئی نہیں بلکہ ضرورت پر اپنے جذبات کو نظم میں ظاہر
کر دینا ہے ۔کیونکہ نظم اثر انداز ہونے میں نثر پر فوقیت رکھتی ہے ۔ آپ کے کلام میں
تصنع بالکل نہیں جو خیالات دماغ میں آئے ہیں ان کو بے تکلف عام فہم سلیس زبان میں نظم
کا جامہ پہنا دیا گیا ہے ۔
یہ ظاہر کر دینا بھی ضروری ہے کہ اشعار
لکھنے والے اپنے اشعا ر پر استادوں سے اصلاح لیا کرتے ہیں اور عام طور پر یہی دستور
چلا آتا ہے لیکن یہ مجموعۂ کلام کسی حک و اصلاح کا رہینِ منت نہیں ہے ۔
مسلم خواتین اور شعر
آنحضرت ؐ کی صحابیات ؓ میں سے حضرت
خنساء جو نہایت بلند پایہ شاعرہ تھیں اپنے دیوان کی وجہ سے مشہورو معروف ہیں۔ان کے
علاوہ بعض اور صحابیات ؓ کا بھی منظوم کلام پایا جاتا ہے ۔مثلا ً فاطمہؓ بنت رسول اللہ
ؐ اور حضرت اسماءؓ بنت ابی بکرؓ الصدیق اور حضرت عاتکہؓ وغیرہ رضی اللہ عنہن۔
لیکن ہماری جماعت میں شاذ نادر ہی کوئی
خاتون ایسی ہو گی جو اپنے دلی خیالات اور جذبات کو منظوم کلام کی صورت میں بیان کرتی
ہوں۔ اس کی اصل وجہ جو میں خیال کرتا ہوں کہ احمدی خواتین کی عدم توجہی ہے ورنہ تعلیم
کے میدان میں تو وہ بفضلہ تعالیٰ دوسری خواتین سے سبقت لے گئی ہیں۔
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے
منظوم کلام کا مجموعہ شائع کرنے سے الشرکۃ الاسلامیہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ احمدی
خواتین اس طرف توجہ کریں تا وہ نثر کے علاوہ منظوم کلام میں بھی اسلام کی خوبیاں بیان
کر سکیں اور قومی اور ملی ترقی میں اس جہت سے بھی حصہ لے سکیں۔ بعض اوقات منظوم کلام
لوگوں کے دلوں پر وہ اثر ڈالتا ہے جو نثر نہیں ڈال سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح
موعودں کو یہ توفیق بخشی کہ آپ اسلام کی سچائی کے دلائل اور قرآنی حقائق و معارف اور
اپنا دعویٰ اور اس کی صحت کا ثبوت نظم و نثر دونوں ہی میں اکمل صورت میں بیان کر سکیں۔
مگر شعر کہنے سے وہی مقصود ہونا چاہئے جو ہمارے آقاو مولا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے یعنی ؎
کچھ شعرو شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
دسمبر1959ء خاکسار:جلال الدین شمس
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں