بخارِدل
صفحہ300۔303
118۔ مرزاغالب اوراُن کے طرفدار
(ایک غزل غالبؔ کے رنگ میں)
مرزا غالبؔ مشکل گو شاعر بھی تھے اور
فلاسفر بھی، لیکن جب جامِ دو آتشہ کے نشہ میں شعر کہتے تھے۔ تو کبھی کبھی کوئی لفظ
یا فقرہ شعر میں سے محذوف بھی ہو جاتا تھا۔ اگرچہ کھینچ تان کر اُس شعر کے معنی تو
نکل سکتے تھے مگر اس کھینچا تانی کے لئے بھی ماڈرن دماغ ہی چاہئے تھا۔ شاعر پرستی بھی
ایک فیشن ہے۔ اس موجودہ زمانے میں جب غالبؔ بے حد ہر دلعزیز ہو گئے ہیں تو ہر شخص خواہ
لائق ہو یا نالائق اُن کی تائید کرنے لگا ہے۔ بے معنی اشعار کے معنی نکلنے لگے ہیں
اور ٹٹ پونجیئے بھی ''غالب دان'' بن گئے ہیں جو باتیں مومنؔ، ذوقؔ، اور دیگرآئمۃ الشعراء
کی سمجھ میں نہ آئی تھیں وہ آج کل کے سینما بین نوجوانوں کو نظر آنے لگی ہیں۔ اُس زمانہ
کے ایک مشاعرہ میں ایک بڑے قادرالکلام شاعر نے خود مرزا غالبؔ کو مجلس میں مخاطب کرکے
یہ کہا تھا کہ
کلامِ میرؔ سمجھے اور کلامِ میرزاؔ
سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا
سمجھے
اور غالبؔ آپ بھی اپنے اِس نَقص کے
معترِف تھے کہ میرے بعض اشعار بے معنی ہوتے ہیں، چنانچہ خود اُن کا ہی کلام ہے کہ
نہ سہی گر مرے اشعار میں معنی نہ سہی
میرا یہ مطلب نہیں کہ غالبؔ معمولی
شاعر تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ گو وہ نہایت اعلیٰ اور فلسفیانہ اشعار کہتے تھے مگر بعض
اشعار اُن کے مشکل اور دقیق اور بعض واقعی بے معنی ہوا کرتے تھے، اور سب اہل الرائے
ادیبوں اور شاعروں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مگر آج کل ایک فرقہ ایسا پیدا ہو گیا
ہے جو اُن کو ناواجب طور پر آسمان پر چڑھا رہا ہے۔ اِنہی میں سے ہمارے ایک دوست محمدؔ
جی صاحب بھی تھے وہ کہا کرتے تھے ''واہ غالب، ظالم غالب تیرا کلام کیسا عجیب ہے۔ میرے
نزدیک تو تیرا ایک شعر بھی بے معنی نہیں ہے! ایک بندش بھی بغیر خوبی کے نہیں ہے! وہ
لوگ بدتمیز، بے علم اور احمق ہیں جو تیرے اشعار کو مشکل یا بے معنی کہتے ہیں! مجھ سے
پوچھیں تو میں اُن کو تیرے اشعار آبدار کی تفسیر کر کے بتاؤں'' وغیرہ وغیرہ۔
جولائی 1906ء کا زمانہ تھا کہ اک دن
جب میں ایسے فقرے سنتے سنتے تھک گیا تو اُن سے عرض کیا کہ ''بھائی محمد جی صاحب! ہمارے
پاس بھی آپ کے مکرم محترم غالبؔ کی ایک غیر مطبوعہ غزل ہے۔ جب جانیں تُم اس کے صحیح
معنی کر دو۔ ورنہ شیخی بگھارنا تو کوئی خوبی نہیں کہنے لگے ''ابھی لایئے، ابھی'' میں
نے عرض کیا ''کل پیش کروں گا'' چنانچہ رات کو ہماری پارٹی نے ''غالب'' بن کر اُن کی
طرز کی ایک غزل بنائی۔ اس ''سازش'' میں تین چار آدمی شریک تھے۔
دوسرے دن جب محمدؔجی صاحب تشریف لائے
تو ہم نے وہ غزل پیش کی۔ پہلے تو دیر تک اُسے پڑھتے رہے، پھر فرمانے لگے ''بے شک ہے
تو یہ غالب ہی کی'' پھر جھومنے لگے ''واہ کیا کلام ہے! کیا باریک نکات ہیں، کیا الفاظ
کی بندش ہے، کیا گہرائیاں ہیں۔ کیا معنی ہیں۔ بس قربان ہونے کو جی چاہتا ہے''
یہ کہہ کراُنہوں نے ایک ایک
شعر کی باریکیاں اور معنی بیان کرنے شروع کئے جب آخری شعر کی تفسیر سے فارغ ہوئے تو
حاضرین نے ایک قہقہہ لگایا، پھر تالیاں پیٹیں اور آخر میں تین دفعہ ہِپ ہِپ ہُرّے کا
نعرہ بلند کیا۔ محمد جی بیچارے پریشان سے ہو گئے کہنے لگے ''کیا بات ہے؟'' آخر جب اصل
بات معلوم ہوئی تو شرمندگی کے مارے اُن کی یہ حالت ہو گئی کہ جیسے گھڑوں پانی سر پر
پڑ گیا ہو۔ بار بار پوچھتے کہ ''سچ بتاؤ، واقعی یہ غزل غالب کی نہیں ہے؟ کہیں مجھے
بنا تو نہیں رہے؟'' مگر جب اُنہیں یقین آ گیا تو پھر ایسے فَفِرُّو ہوئے کے مدتوں تک
اُن کی زیارت نصیب نہ ہوئی۔ اس کے بعد جب بھی ملے تو اُکھڑے اُکھڑے اور اس واقعہ کے
بعد تو انہوں نے غالبؔ کا نام ہی لینے کی گویا قسم کھا لی۔ ناظرین کے تفنّن طبع کے
لئے وہ غزل درج ذیل ہے۔
(واضح ہو کہ اس واقعہ سے غالبؔ مرحوم کے کمال
اور اُن کی شاعری کی سُبکی یا توہین ہر گز مقصود نہیں بلکہ موجودہ زمانے کے بعض ''غالب
شناسوں'' کی حالت کا دکھانا مقصود ہے۔ محمد اسمٰعیل)
سوزشِ دِل تو کہاں اس حال میں
جان و تن ہیں سوزنِ جنجال میں
کیوں نہیں آفت مجھے آتی نظر
غیر ہے گر اُس سے قِیل و قال میں
خاطرِ بُت خاطرِ حسرت بنے
گر صنم کو چھوڑ دوں اس حال میں
قبضِ خاطر آسماں بھی کیا کرے
فائدہ ہرگز نہ ہو اسہال میں
چشمِ دِل کیوں اِبنِ آدم بن گئی
دانۂ گندم کہاں اس کال میں
موت کی ساعت کہ شاید آ گئی
طنطنہ خنجر کا ہے گھڑیال میں
ہوں سُبک سر یاں تلک میں اے قضا
بال سر پر اور سر ہے بال میں
کوہ کُن شیریں ادا میں محو تھا
ناگہاں غلّہ لگا کریال میں
چشمِ بینا چشمۂ مِنقار ہے
دقّتِ افعال ہے اقوال میں
مُشتِ پَر اور تِیرگی انداز کی
شاہدانِ نُور کے اِک بال میں
پہلے تھا ہمدم سے مِل کر نیشکر
تلخ دارُو ہے مگر اِمسال میں
دشتِ غربت! ہم سفر کیونکر چلے
اس صنم کی ظالمانہ چال میں
جانبِ ادبار کیوں قسمت چلی
ہے تلاطم آج کل اقبال میں
چاشنی اُس تیرِ مِژگاں کی نہ پوچھ
خندۂ دِل ہو گیا سُو فال میں
قیسؔ کو مجنوںؔ سمجھنا ہے غلط
عقلِ کُل ہے عشق کے افعال میں
حُقّۂ غم گر نہ بولے بے صدا
آتشِ غم نقرئی مہنال میں
نُور کا عالم پری ہو یا کہ حُور
ہے صفائی سیم تن کی کھال میں
گردشِ پیر فلک صد حیف ہے
پھینکنا تھا کیا ہمیں پاتال میں
خالِ رُخ ہے مر غِ دِل سے یوں نہاں
آ گیا رمضان ہے شوّال میں
نحس بختی کو نجومی دیکھ کر
مشتری رکھتا ہے میری فال میں
تن برہنہ نجد میں مجنوں پھرے
ناقۂ لیلا نہ ہو گر شال میں
خرّمی! آسائشِ دِل کیا ہوئی
نقص ہے گر حُسن کے اِکمال میں
ہم نفس کہتا غلط ہے گاؤ میش
روغنِ گُل بیضۂ گھڑیال میں
غالبؔ تیرہ دروں بیروں سیاہ
زُلفِ مُشکیں پنجۂ خلخال میں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں