بخارِدل
صفحہ283۔284
115۔
مزاحیہ کلام ۔ دکھاوے کی محبتیں
قاضی صاحب کی جب مَری لونڈی
شہر کا شہر پُوچھنے آیا
قاضی صاحب مگر مَرے جس دن
نظر آئی کہیں نہ بزمِ عزا
ہے مَحبت فَقَط دِکھاوے کی
اہلِ دُنیا کا ہے یہی شیوہ
قاضی صاحب کی ایک تھی بیٹی
اپنی گُڑیا کا اُس نے بیاہ کیا
لڑکی والوں کے ہاں تھا آدھا شہر
باقی آدھا براتیوں میں تھا
آخر اِک دن قضائے ربیّ سے
قاضی صاحب کا اِنتِقال ہوا
بعد کچھ دن کے اُن کی بیٹی کا
ایک مُفلِس سے ہو گیا رِشتہ
آدمی ایک بھی نہ موجود
کسمپرسی میں ایسا عَقد ہوا
ہے مَحبت فَقَط دِکھاوے کی
اہلِ دُنیا کا ہے یہی شیوہ
قاضی صاحب کی ایک کُتیا تھی
پَیر میں اُس کے چُبھ گیا کانٹا
پھر تو بیمار پُرس خَلقَت کا
تین دن تک بندھا رہا تانتا
چِھن گیا عُہدۂِ قضا، افسوس
کچھ دنوں بعد قاضی صاحب کا
''اُترا شحنہ'' کہا گیا اُن کو
نام ''مردک'' رکھا گیا اُن کا
ایک چھکڑے سے اتفاقاً پھر
پاؤں کُچلا گیا بچارے کا
لاد کر لے گئے شِفا خانے
فرض اپنا کیا پولس نے ادا
ماجرا اب وہاں کا بھی سنئے
قاضی صاحب پہ حال جو گزرا
پاس پیسہ نہ تھا جو دینے کو
منہ کسی کا نہ کر سکے میٹھا
ناغہ ہوتی تھیں پَٹّیاں اکثر
نہ دوا تھی نہ رُوئی اور کپڑا
جاں بحق ہوگئے وہ گل سڑ کر
قصہ یوں آپ کا تَمام ہوا
ہے مَحبت فَقَط دِکھاوے کی
اہلِ دنیا کا ہے یہی شیوہ
قاضی صاحب کا ایک بیٹا تھا
بن گیا وہ پولس کا داروغہ
ہو گیا وہ امیر رِشوت سے
مَقبَرہ باپ کا بنا ڈالا
ختم کروا دیے کئی قرآں
اور فقیروں کو خوب کھِلوایا
جتنے مُلّا تھے شہر میں سب کو
جوڑا اور نقد تحفۃً بھیجا
پھر بڑے اِہتِمام سے ہر سال
قاضی صاحب کا عُرس ہونے لگا
قبر پر ٹُوٹنے لگی خَلقَت
''پیر قاضی'' کا نام چل نکلا
بن گئے مُفت میں وہ قُطب اور غَوث
اور کرامت کا بج گیا ڈنکا
قبر پُجنے لگی بجوش و خروش
بن گئے شہر کے خدا گویا
نصف شب کو مگر مِزار میں سے
سنتے ہیں سب کہ کوئی ہے گاتا
ہے مَحبت فَقَط دِکھاوے کی
اہلِ دنیا کا ہے یہی شیوہ
رہنمائے تعلیم نومبر 1943ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں