صفحات

بدھ، 4 مئی، 2016

116۔ المناک حادثہ

بخارِدل صفحہ285۔294

116۔ المناک حادثہ


مندرجہ ذیل سچا واقعہ میرے بچپن کے زمانہ کا ہے۔ ایک مہترانی جس کا نام نہالی تھا اور جو جوانی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ ہمارے ہاں قادیان میں کمایا کرتی تھی۔ ایک دن ایک حلال خور نے جس کا نام پیڑا تھا عین دن کے وقت برسرِراہ اُسے پکڑا اور زمین پر گرا کر اُس کی ناک دانتوں سے چبا ڈالی یہ ''المناک حادثہ'' 15ستمبر1903ء کو واقع ہوا تھا۔ مجھے اپنی مہترانی کی اس بدحالی کا بڑا رنج ہوا۔ اور میں نے سارے واقعہ کی ٹوہ لگانے کی بڑی کوشش کی اور جو واقعات معلوم ہوئے ان کو ایک مرثیہ کے طور پر نظم میں لکھا، اس نظم کا قادیان کے بچوں میں بڑا چرچا ہوااور بچے قادیان کی گلیوں میں ان اشعار کو گاتے پھرے۔ مرثیہ ذیل میں لکھاجاتا ہے:-

رَنج و اَلَم کا حَیف مَیں کیا ماجرا لِکھوں
دردِ نہاں کو کیونکر مَیں اب بَرمَلا لِکھوں

سینہ قَلَم کا شَق ہے یہ کہتی ہے کیا لِکھوں
اشکِ سیہ بہاؤں کے یہ سانِحہ لِکھوں

ہوش و حواس پراگندہ سب کے ہیں
آثار منہ پہ لوگوں کے رَنج و تَعَب کے ہیں

کیسی یہ ناگہانی مصیبت پڑی ہے ہائے
کیونکر یہ جھیلی جائے کہ آفت کڑی ہے ہائے

مَنحوس کیسی درد و اَلم کی گھڑی ہے ہائے
ہر سمت اشکِ غم کی لگی اک جھڑی ہے ہائے

آہ و فُغاں کا چار طرف ایک شور ہے
جوشِ وُفُورِ گِریہ سے ہر چشم کور ہے

اب کیا بتاؤں حالِ دلِ ناتوان و زار
ہے جی میں یہ کہ کر دوں حقیقت کو آشکار

وہ واقعہ کہ جس کے سبب جاں ہے بیقرار
وہ سانحہ کہ سُن کے جسے سب ہیں سوگوار

تَفصِیل اس کی ساری میں زیبِ رَقَم کروں
جو کچھ ہوا ہے لکھ دوں نہ کچھ بیش و کم کروں

تھی ایک مِہترانی، نِہالی تھا جس کا نام
ٹٹی کا صاف کرنا ہمیشہ تھا اُس کا کام

نازُک تھی اتنی عطر سے ہوتا اُسے زُکام
پر اپنے کام میں وہ لگی رہتی صبح و شام

عورت تو تھی پہ ہِمّتِ مردانہ اُس میں تھی
ظاہرمیں کوئی حرکتِ بیجا نہ اُس میں تھی

آرام ظاہری کسی صورت کا کم نہ تھا
فکرِ معاش و پوشِش و خور کا اَلَم نہ تھا

کچھ فَقر و مُفلِسی کا اسے رَنج و غم نہ تھا
اندیشہء نوشتہء لَوح و قَلَم نہ تھا

معلوم کیا تھا یہ کہ زمانہ ستائے گا
یوں بیٹھے بیٹھے خون کے آنسو رُلائے گا

مہتر تھی اِک زمانہ میں سب مہتروں پہ وہ
عزّت سے اُس کے پاؤں کو رکھتے سروں پہ وہ

کرتی تھی چودھراہٹیں ان کے گھروں پہ وہ
پانی کبھی بھی پڑنے نہ دیتی پَروں پہ وہ

پر حَیف آج خود ہی مَصائب میں غرق ہے
سیلاب آفتوں کا زِ پا تا بِفَرق ہے

تھا رشکِ بوستانِ اِرَم پہلے اُس کا گھر
شوہر کا اپنے سر پہ وہ رکھتی تھی تاجِ سر

گر ساس تھی تو ماں سے بھی کچھ مہربان تر
سُسر نے دی تھی دِل سے بُھلا شفقت پِدَر

اِفلاس کی ہوا بھی کہیں چار سُو نہ تھی
اتنی کُشادگی کہ کچھ آرزُو نہ تھی

کٹتی تھی زندگی اسی عیش و بہار سے
سب بے خبر تھے لیک زمانے کے وار سے

منہ موڑ اپنا ہستیء ناپائیدار سے
ساس اور سسرا چل دئے اس رُوزگار سے

سر تاج جو کہ تھا سو وہ سر سے گزر گیا
داغِ فراق و صدمۂ غم دِل پہ دَھر گیا

اُوپر تلے کی موت سے بدحال ہو گئی
آفت پڑی کہ بے پَر و بے بال ہو گئی

ظُلم و سِتم سے دہر کے پامال ہو گئی
اپنی ہی زندگی اُسے جَنجال ہو گئی

آنکھوں میں ایک قطرۂ آنسو نہیں رہا
سر کو گھسوٹا اتنا کہ اِک مُو نہیں رہا

آخر کو روتے روتے ذرا دل سنبھل گیا
دُنیائے دُوں کے شغل میں کچھ کچھ بہل گیا

سَر پر جو تھا پہاڑ اَلَم کا سو ٹَل گیا
دُودِ فُغاں کی راہ سے سب غم نکل گیا

پھر صبر آ گیا دلِ آشُفتہ حال میں
رَنج و اَلَم چلے گئے خواب و خیال میں

بچوں کے ساتھ اپنے وہ رہتی اکیلی تھی
ہمدرد و دوست کوئی، نہ کوئی سہیلی تھی

آرام و عیش اُس کے لئے اِک پہیلی تھی
بختِ رسا کے نَقش سے خالی ہتھیلی تھی

یہ کَسمپرس حال نہ آیا اُسے پسند
بامِ نِشاط پر لگی وہ ڈالنے کمند

اک آدمی پہاڑ کا پِیرو تھا جس کا نام
نالی کا صاف کرنا تھا کام اُس کا صبح و شام

پڑتا تھا چونکہ دونوں کو اک دوسرے سے کام
ہونے لگا کلام کبھی کچھ' کبھی سلام

آخر کو ہوتے ہوتے ملاقات ہو گئی
جس بات کی تھی آرزو وہ بات ہو گئی

پِیرو کی سرپرستی میں سب غم گئی وہ بھول
پھر کھِل گیا وہ دل کا جو مُرجھا گیا تھا پھول

پھر راحتِ دل از سرِ نَو ہوئی حُصول
اِس نے اُسے اور اُس نے اِسے کر لیا قبول

بیوی میاں کی طرح لگی ہونے پھر بسر
اپنوں کا کچھ نہ خوف نہ غیروں سے کچھ خطر

یہ اُس پہ شیفتہ تھی وہ تھا اس پہ مہرباں
پیسے روپے سے اس کی مدد کرتا تھا نہاں

بدلے میں یہ بھی اس کو کِھلاتی مِٹھائیاں
ہر روز میٹھے ٹکڑوں کی لاتی رکابیاں

بڑھنے لگے یہ پِینگ محبت کے رات دن
اُس کو نہ چَین اِس سوا اِس کو نہ اُس کے بِن

پیرِ فلک نے یاں بھی نہ چھوڑا ہزار حَیف
عیش و خوشی کے بند کو توڑا ہزار حَیف

طاعوں سے سر کو پِیرو کے پھوڑا ہزار حَیف
اٹکایا چلتی گاڑی میں روڑا ہزار حَیف

آنکھوں میں جائے اشک بھر آیا تھا لہو
دیوانہ وار پھرتی تھی قَصبہ میں کُو بکُو

آہ و فغاں سے دل کا دُھواں جب نکل چُکا
مَوقَوف رَفتہ رَفتہ ہوا گِریہ و بُکا

چَشمانِ تَر کو صبر کے دامن سے پھر سُکا
اپنے تئیں اک اور کے ہاتھوں دیا چُکا

اگلی سی پھر وہ صحبتیں تیار ہو گئیں
خوابیدہ خواہشیں جو تھیں بیدار ہو گئیں

اب کے نصیب جس کے کھلے وہ تھا ایک چور
پیڑاؔتھا اُس کا نام مگر تھا حلال خور

تھا شورشوں سے اُس کی زمانہ میں ایک شور
ٹکر کا اُس کی مِلتا نہ تھا کوئی شاہ زور

لاٹھی اُٹھا کے مارے تو بھینسا ہو اَدھ مُؤا
دن رات یا شراب تھی، چوری تھی، یا جُؤا

لا لا کے اس نے خُوب ہی اِس کو کھِلایا مال
پورا کیا ہر ایک جو اس نے کیا سوال

پوشیدہ دل میں جتنے تھے اَرماں دیے نِکال
آخر گزر گیا اِسی حالت میں ایک سال

افسوس پر کہ دہر کو آیا نہ خوش یہ طَور
کرنے لگا رقیبوں کی مانند ظُلم و جَور

ایک روز کا سناؤں تمہیں میں یہ ماجرا
پیڑےؔ میاں کو ایک سفر پیش آ گیا

جاتے ہوئے وہ مِل کے نہالی سے کہہ گیا
مجھ کو نہ اپنی یاد سے دیجو ذرا بھُلا

اور عہد لے لیا کہ میں واپس جب آؤں گا
تیرے ہی ساتھ آن کے شادی رچاؤں گا

القصہ وہ تو چھوڑ کے اس کو چلا گیا
دل اس بیچاری غمزدہ کا یاں جلا کِیا

مدت تک نہ اس کا لگا کچھ بھی جب پتا
آخر کو تنگ ہو، اُسے دل سے بھُلا دیا

چاہا کہ اور کوئی لگے ہاتھ اب شکار
موچی ہو، نائی ہو، کہ وہ چُوڑھا ہو یا چمار

وہ اپنی دُھن میں تھی کہ اِدھر یہ غَضَب ہوا
اک دن برادری نے بُلا کر اُسے کہا

کس طرح بیوگی یہ کٹے گی تِری بھلا؟
بہتر ہے تیرے واسطے گھر اپنا تُو بسا

دیور تیرا کماؤ ہے اور نوجوان ہے
خاوندِ مردہ کا ترے وہ اِک نِشان ہے

اِصرار سے وہ کُنبے کے مجبور ہو گئی
تجویز اس بیاہ کی منظور ہو گئی

جتنی برادری تھی وہ مَسرُور ہو گئی
کُلفَتِ فِراق پیڑے کی سب دُور ہو گئی

شادی کا پھر تو ہونے لگا خوب اِہتمام
دُلہن بھی خوش تھی اور تھا دولہا بھی شاد کام

شادی میں ایک ماہ کا جب فاصلہ رہا
سامان سب بیاہ کا تیار ہو چکا

مشہور اس کا شُہرہ ہوا جبکہ جا بجا
اتنے میں آ کے غُلّہ یہ کُریال میں لگا

لڈو بٹے نہ تھے کہ میاں پیڑے آ گئے
آتے ہی طَور بدلے ہوئے یاں کے پا گئے

گھر آ کے سب ہی بگڑے ہوئے دیکھے اُس نے ڈھنگ
اس بیوفا نے پیچھے کھلائے تھے جو کہ رنگ

ہونے کو ہے بیاہ یہاں ایک اور سنگ
اس بے مروّتی و بد عہدی سے ہو کے تنگ

کھائی قسم کہ ہونے نہ دوں بیاہ تو سہی
کی تُو نے جیسی مجھ سے ۔کروں گا میں تُجھ سے بھی

اک دن اکیلا پا کے نہالی سے یوں کہا
اے نیک بخت میری حقیقت کو سُن ذرا

رخصت مَیں تجھ سے ہو کے سفر پر تھا جب گیا
جاتے ہی اِک امیر کے ہاں سیندھ دی لگا

افسوس پر کہ ہاتھ لگا کچھ نہ سِیم و زَر
اُلٹا سپاہیوں نے لیا مجھ کو واں پہ دَھر

چھ ماہ تک مَیں بند رہا قید خانے میں
اس واسطے مجھے ہوئی یاں دیر آنے میں

ایک رتی بھر بھی جھوٹ نہیں اس فسانے میں
پر تجھ سا بےوفا بھی نہ ہو گا زمانے میں

جو عہد تو نے مجھ سے کیے تھے گئی وہ بُھول
اک اور مَرد پیچھے مِرے کر لیا قُبول

پیڑے میاں کا سُن کے یہ افسوس اور ملال
کہنے لگی غرور سے اپنے پھُلا کے گال

''چل دُور ہو زُبان کو اپنی ذرا سنبھال
ایسے لگے ہیں کون سے تجھ کلموہے میں لال

چور اور قیدیوں سے مجھے واسطہ نہیں
ایسوں کی دوستی میں کوئی فائدہ نہیں''

سُن کر یہ بات گرچہ وہاں سے گیا وہ ٹَل
جاتے ہوئے یہ کہہ گیا ''رہیو ذرا سنبھل

دو چار دِن میں سارا نکل جائے گا یہ بَل
تو بھی رکھے گی یاد کہ تھا کوئی پیڑا مل

کر دُوں تجھے مَیں ایسا کہ سب شادی جائے بھُول
دیور تو کیا ہے، کُتے نہ ہر گز کریں قُبول''

پیڑا تو کہہ کے یہ کسی جانِب کو چل دیا
اور اِنتقام لینے کی تدبیر میں لگا

اور یاں بیاہ شادی کا چرچا تھا جا بجا
یاں تک کہ صرف ایک ہی دن باقی رہ گیا

اور اِنتظار تھا کہ سرِ شام کل کی رات
آئے گی گھر نہالیؔ کے اک دُھوم کی برات

افسوس پر کہ شادی یہ تقدیر میں نہ تھی
قِسمت میں بدنصیبی تھی ایسی لکھی ہوئی

دُنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی
سچ پوچھئے تو جیتے ہی جی گویا مر گئی

گزرا وہ اس کے ساتھ کہ تابِ رَقَم نہیں
صدمہ ہے دل کو ایسا کہ اب دَم میں دَم نہیں

اُس شام کو کہ شادی میں اک دن تھا درمیاں
سر پر تھا اُس کے ٹوکرا جھولی میں روٹیاں

بھُولی ہوئی تھی دُنیا کا سب سُود اور زِیاں
تھی دل میں خوش کہ کل کو ملے گا مجھے ۔ میاں

گھر کی طرف قدم کو بڑھائے وہ جاتی تھی
بدقسمتی بھی آگے سے ملنے کو آتی تھی

تنہا وہ گھر کو جاتی تھی بے خوف و بے خطر
سقّوں کے کوچہ میں سے لگی کرنے جب گُزر

دو مرد آ کھڑے ہوئے رستے کو روک کر
گھبرا کے منہ کو دونوں کے دیکھا جو غور کر

چہرے پہ اُڑنے لگ گئیں ڈر سے ہوائیاں
سر پر سے ٹوکرا گرا، جھولی سے روٹیاں

دہشت کے مارے دونوں کے وہ چیخنے کو تھی
پیڑے اور اس کے بھائی نے فُرصت مگر نہ دی

دھکے سے اُن کے دَھم سے زمیں پر وہ آ پڑی
چھاتی پہ پھر وہ چڑھ گیا اور اُس کا بھائی بھی

وہ ظُلم اُس کے ساتھ کیا اُس پلید نے
جتنا کیا نہ تھا کبھی شِمر و یزید نے

دانتوں سے اُس کی ناک پکڑ کر جھنجھوڑ دی
دائیں طرف کبھی، کبھی بائیں مروڑ دی

آخر بزور کھینچ کے وہ جڑ سے توڑ دی
کیا کاٹی اُس کی ناک کہ قسمت ہی پھوڑ دی

پھر یہ غضب کیا کہ اسے وہ چبا گیا
کیا جانے کیا مزا تھا کہ کچی ہی کھا گیا

کاٹے تھا ناک اور وہ کہتا تھا اُس سے یوں
''لے جتنے چاہے اُتنے خَسم اب میں تجھ کو دُوں

تو نے مِری اُمید کا جیسے کیا تھا خُوں
ویسے ہی عمر بھر نہ کراؤں جو غاؤں غوں؟

تو جانیو کہ باپ کا اپنے نہیں میں پُوت
سَو ماریو اُٹھا کے مِرے سر پہ اپنے جُوت''

یہ کہہ کے وہ اور اس کا برادر چلے گئے
پر عمر بھر کے واسطے اک تحفہ دے گئے

نتھنوں سے اُس کے خون کے نالے بہے گئے
لوگوں کو جب خبر ہوئی تب گھر کو لے گئے

بیہوش ساری رات وہاں وہ پڑی رہی
جب دن چڑھا تو ساری حقیقت بیان کی

افسوس رنج و غم کی کوئی اِنتہا نہیں
ہمدرد ہائے کوئی بھی اپنا رہا نہیں

منہ کو چھپائے ایسی کوئی  مِلتی جا نہیں
اب چارہ' سوزِ دل کا' سوائے فَنا نہیں

محروم ایسی عمر میں ہو جائے ناک سے
ہے ہے، ملے جوانی بچاری کی خاک سے

نوٹ: اس نئے جرم کی سزا میں پیڑے کو دو سال قید با مشقت کی سزا ہوئی جب وہ قید سے واپس آیا تو فقیر بن گیا۔ پہلے تو عشقِ مجازی کے زور میں نہالیؔ کا نام جپتا پھرا۔ پھر عشقِ حقیقی کا مُدّعی بن بیٹھا۔ چند سال کے بعد اُس نے ایک باغیچہ اور تکیہ بنا کر اُس میں درویشانہ زندگی بسر کرنی شروع کی اور حلال خوروں کا پیر بن گیا۔ کئی سال ہوئے وہ فوت ہو چکا ہے اُس کا جانشین اُس کی قبر پر گدی نشین ہے۔ مگر نہالیؔ زندہ ہے۔ اس کی عمر ستّر (70) سال سے متجاوز ہے۔ نابینا ہو گئی ہے اور چراغِ سحری ہے۔
(30دسمبر 1944ء)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں