درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ1۔4
3۔ التجائے قادیاں
یہ
نظم ''الفضل '' 29 جولائی 1924 ء میں شائع ہوئی تھی اور الحکم 7اگست 1924 ء میں
میرے مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع ہوئی اور یہ نظم حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح
الثانی رضی اللہ عنہ کی نظم'' یادِ قادیان ''کے جواب میں تھی جو آپ نے سفر یورپ
میں کہی تھی جس کا پہلا شعر ہے ؎
ہے
رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں
مدعائے
حق تعالیٰ مدعائے قادیاں
اور
آخری شعر ہے
جب
کبھی تم کو ملے موقعہ دعائے خاص کا
یاد
کر لینا ہمیں اہل وفائے قادیاں
جناب
بیگم صاحبہ نے مندرجہ ذیل نظم ایسی حالت میں کہی جب کہ آپ کی طبیعت علیل تھی۔ اس
نظم میں آپ نے قلبی کیفیات کا اظہار کیا ہے اور جس سوزوگداز سے یہ نظم کہی گئی ہے
او ر جس قسم کی اضطرابی اور بے قرارئ دل کا اور انتہائی درجہ کی محبت کا اس میں
اظہار کیا گیا ہے وہ قارئین کرام پڑھ کر معلوم کر سکتے ہیں اور حقیقت میں یہ نظم
تمام جماعت کے قلبی جذبات کا آئینہ ہے ۔خدا تعالیٰ ان الفاظ کو جلد سے جلد قبولیت
کا جامہ پہنائے اور ہماری روح رواں کو مظفر اور منصور باصد کامیابی و کامرانی واپس
دارالامان لائے۔شمس
سیّدا! ہے آپ کو شوقِ لقائے قادیاں
ہجر میں خوں بار ہیں یاں چشمہائے قادیاں
سب تڑپتے ہیں کہاں ہے زینتِ دارالاماں
رو ِنق بستانِ احمد دل ربائے قادیاں
جان پڑ جاتی تھی جن سے وہ قدم ملتے
نہیں
قالبِ بے روح سے ہیں کوچہ ہائے قادیاں
فرقتِ مہ میں ستارے ماند کیسے پڑ گئے
ہے نرالا رنگ میں اپنے سماءِ قادیاں
وصل کے عادی سے گھڑیاں ہجر کی کٹتی
نہیں
بارِ فرقت آپ کا کیونکر اٹھائے قادیاں
روح بھی پاتی نہیں کچھ چین قالب کے
بغیر
ان کے منہ سے بھی نکل جاتا ہے ہائے
قادیاں
ہو وفا کو ناز جس پر جب ملے ایسا مُطاع
کیوں نہ ہو مشہورِ عالم پھر وفائے قادیاں
کیوں نہ تڑپا دے وہ سب دنیا کو اپنے
سوز سے
درد میں ڈوبی نکلتی ہے صدائے قادیاں
اس گلِ رعنا کو جب گلزار میں پاتی نہیں
ڈھونڈنے جاتی ہے تب بادِ صبائے قادیاں
یاد جو ہر دم رہے اس کو دعائے خاص میں
کس طرح دیں گے بُھلا اہلِ وفائے قادیاں
کشتی ء دین محمدؐ جس نے کی تیرے سپرد
ہو تری کشتی کا حافظ وہ خدائے قادیاں
منتظر ہیں آئیں گے کب حضرت فضلِ عمر
سوئے رہ نگراں ہیں ہر دم دیدۂ ہائے
قادیاں
مانگتے ہیں سب دعا ہو کر سراپا آرزو
جلد شاہِ قادیاں تشریف لائے قادیاں
شمسِ ملت جلد فارغ دورۂ مغرب سے ہو
مطلعء مشرق سے پھیلائے ضیائے قادیاں
خیریت سے آپ کو اور ساتھ سب احباب کو
جامع المتفرقین جلدی
سے لائے قادیاں
آئیں منصور و مظفر کامیاب و کامراں
قصرِ تثلیثی پہ گاڑ آئیں لوائے قادیاں
پیشوائی کے لئے نکلیں گھروں سے مرد
و زن
یہ خبر سن کر کہ آئے پیشوائے قادیاں
ابرِ رحمت ہر طرف چھائے ،چلے بادِ کرم
بارشِ انوار سے پُر ہو فضائے قادیاں
گلشن احمد میں آ جائے بہار اندر بہار
دل لبھائے عندلیبِ خوشنوائے قادیاں
معرفت کے گل کھلیں تازہ بتازہ نو بہ
نو
جن کی خوشبو سے مہک اٹھے ہوائے قادیاں
مانگتے ہیں ہم دعائیں آپ بھی مانگیں
دعا
حق سنے اپنے کرم سے التجائے قادیاں
علم و توفیقِ بلاغِ دین ہو ان کو عطا
قادیاں والوں کا ناصر ہو خدائے قادیاں
راہِ حق میں جب قدم آگے بڑھا دے ایک
بار
سر بھی کٹ جائے نہ پھر پیچھے ہٹائے
قادیاں
خا ِلق ہر دو جہاں کی رحمتیں ہو ں آپ
پر
والسلام اے شاہِ دیں اے رہنمائے قادیاں
الحکم 7اگست 1924ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں