درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ7۔9
5۔ ناز ِ محبت
دنیا میں حاکموں کو حکومت پہ ناز ہے
جو ہیں شریف ان کو شرافت پہ ناز ہے
عابد کو اپنے زہدوعبادت پہ ناز ہے
اور عالموں کو علم کی دولت پہ ناز ہے
حُسنِ رقم پہ ناز ہے مضموں نگار کو
پھر کاتبوں کو حُسنِ کتابت پہ ناز ہے
ماہر کو ہے یہ ناز کہ حاصل ہے تَجرِبہ
عاقل کو اپنے فہم و فراست پہ ناز ہے
جن کی بہادری کی بندھی دھاک ہر طرف
تن تن کے چل رہے ہیں شجاعت پہ ناز ہے
صنعت پہ اپنی ناز ہے ّصناع کو اگر
مو جِد کو اپنی طبع کی جودَت پہ ناز
ہے
ماہر ہے سرجری میں تو ہے ڈاکٹر کو ناز
حاذِق ہے گر طبیب، طبابت پہ ناز ہے
بیمار کو ہے ناز کہ ''نازک مزاج ہوں''
جو تندرست ہیں انہیں صحت پہ ناز ہے
منعم کو ہے یہ ناز کہ قبضہ میں مال
ہے
عزت خدا نے دی ہے تو عزت پہ ناز ہے
''ہیں مال مست امیر تو ہم کھال
مست ہیں''
اس رنگ میں غریب کو غربت پہ ناز ہے
مانا کہ انکسار بھی داخل ہےخُلق میں
پر کچھ نہ کچھ خلیق کو سیرت پہ ناز
ہے
گوشہ نشیں کو ناز ہے یہ ''بے ریا ہوں
میں''
جو نامور ہوئے انہیں شہرت پہ ناز ہے
نازاں ہے اس پہ جس کو فصاحت عطا ہوئی
جادو بیاں کو اپنی طلاقت پہ ناز ہے
پایا جنہوں نے حسن وہ اس مے سے مست
ہیں
ہر اک سے بے نیاز ہیں صورت پہ ناز ہے
اُڑ کر کہاں کہاں نہ گیا طائرِ خیال
شاعر کو اپنے زورِ طبیعت پہ ناز ہے
دیکھو جسے غرض کہ وہی مستِ ناز ہے
وحشی بھی ہے اگر اسے وحشت پہ ناز ہے
فانی تمام ناز ہیں باقی ہے اس کا ناز
جس کو بقا پہ ناز ہے وحدت پہ ناز ہے
جانِ جہاں! تجھی پہ تو زیبا ہے ناز
بھی
یہ کیا کہ چند روز کی حالت پہ ناز ہے
کیونکر کہوں کہ ناز سے خالی ہے میرا
دل
پیارے مجھے بھی تیری ''محبت پہ ناز''
ہے
حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ
کی یہ نظم اخبار ''الفضل''21اکتوبر1924ء میں ''مستورہ'' کے نام سے شائع ہوئی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں