درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ24۔27
11۔ گلزار محبت
(1)
آثارِ محبت
دل جس کا ہوا حامل اسرارِ محبت
چہرہ پہ برسنے لگے انوارِ محبت
لائے نہ اگر لب پہ بھی گفتارِ محبت
آنکھوں سے عیاں ہوتے ہیں آثارِ محبت
یہ جوش دبانے سے ابھرتا ہے زیادہ
مجبور ہے مجبور ہے سرشارِ محبت
یہ درد کبھی رازِ نہاں رہ نہیں سکتا
گو ضبط بھی کرتا رہے بیمارِ محبت
پوچھے دلِ عُشّاق سے کوئی کہ یہ کیا
ہے
کس لُطف کی دیتا ہے کھٹک خارِ محبت
اس صا ِحب آزار کی راحت ہے اسی میں
بن جائے ہر اک زخم نمک خوارِ محبت
ہر دم دلِ بیمار کو رہتی ہے تمنّا
کچھ اور بڑھے شدّت آزارِ محبت
(2)
اسرارِ محبت
جو کود پڑا اس میں کھلا بھید یہ اس
پر
پوشیدہ ہے فردوس تہِ غارِ محبت
ہر بندِ غلامی سے وہ ہو جاتا ہے آزاد
کہتے ہیں جسے ''بندۂِ سرکارِ محبت''
صد کوہِ مصائب کی بھی پروا نہیں کرتا
وہ سر کہ اٹھا جس نے لیا بارِ محبت
مطعونِ خلائق ہو تو ڈرتا نہیں اس سے
''دیوانہ'' ، پہ عاقل برہِ کارِ
محبت
''اربابِ محبت'' پہ یہ کیوں طعنہ
زنی ہے
اے بے خبر لذتِ آزارِ محبت
گھرتے ہیں اسی دائرہ میں پانچوں حواس٭
آہ
جب قلب پہ پھر جاتی ہے پرکارِ محبت
رہتا نہیں پھر کوئی دل و عقل میں جھگڑا
ہو جاتے ہیں دونوں ہی گرفتارِ محبت
٭
پانچ حواس باطنی اور پانچ ظاہری
(3)
معیارِ محبت
جو عشق میں کامل تھے ہوئے یار پہ قرباں
تکمیل ہوئی بن گئے ''معیارِ محبت''
مالک ہوئے مر مر کے حیاتِ ابدی کے
کھینچے گئے سو بار سرِ دارِ محبت
کیا دیکھ لیا پھر جو پلٹ کر نہیں دیکھا
کھوئے گئے دنیا سے پرستارِ محبت
محبوب کو دل دے کے بنے ''دلبرِ عالم ''
سر دے دئے کہلا گئے ''سردارِ محبت''
اسباق محبت کے زمانے کو پڑھائے
خود ہو گئے وہ نخل ثمر بارِ محبت
(4)
دعا بحضور سرکارِ محبت
اے شاہِ زماں! خالقِ انوارِ محبت
اے جانِ جہاں! رونقِ گلزارِ محبت
کوچہ میں ترے گرم ہے بازارِ محبت
''سر بیچتے پھرتے ہیں خریدارِ
محبت''
ہم کو بھی عطا ہو کہ تری عام ہے رحمت
اک سوزِ دروں خلعتِ دربارِ محبت
شعلہ سا ترے حکم سے سینوں میں بھڑک
جائے
پھر بجھ نہ سکے تا بہ ابد نارِ محبت
ہاتھوں میں لئے کاسۂِ دل آئے ہیں مولا
خالی نہ پھریں تیرے طلبگارِ محبت
آمین
''الفضل''14نومبر1936ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں