کلام
ِبشیرایڈیشن 1963 صفحہ 5۔6
03۔
موت
1909ء
ہر ایک کو دکھاتی ہے اپنی بہار موت
ہر ایک ہی کےہوتی ہے سرپرسوار موت
پنجے سے اُس کے چھوٹ کرجائے کوئی
کہاں
پھیلائے جال بیٹھی ہے ہرسُوہزار
موت
جو مرمٹے ہیں مرکے بھی زندہ رہیں
گے وہ
جتنا نکالنا ہو نکالے بخار موت
تیغِ نگاہ ِیار کا کشتہ ہوں
مَیں،جبھی
ڈرتا نہیں کبھی بھی ڈرائے ہزار موت
میری دکھوں میں شدتِ طبع کو دیکھ
کر
ہوتی ہے دل ہی دل میں بہت شرمسار
موت
مرنا تووصلِ یار ہےیہ جانتا ہوں
میں
مجھ کو بھلا ڈراتی ہے کیوں
باربارموت
مسلم کوو صلِ یارہے،کافر کو وصلِ
نار
اخبارِ آخرت کا ہے نامہ نگار موت
خواہش اگر کوئی ہے تواحمدؐ کی ہے
یہی
اسلام پر ہی دے مجھے پروردگار موت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں